حضرت سیدنا امام ِاَعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے فقہی کارنامے

دوسری صدی ہجری تک اسلامی حکومت بابُ الاسلام سندھ سے اُنْدُلس  تک اور شمالی افریقہ سے ایشیائے کُوچَک تک  پھیل چکی تھی،علمِ  دین سے وابستہ رہنے اور مسائل و احکامات سیکھنے کا شوق لاتعداد مسلمانوں  کو دور دراز علاقوں سے کھینچ کر علمی مراکز  مکہ مکرمہ، مدینۂ منورہ ،کوفہ اور بصرہ کی فضاؤں میں لے آتا تھا۔ علمی مرکز کوفہ سے  امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا ایسا فیض جاری ہوا کہ ہردورکے مسلمان اس سے سیراب ہوتے رہے  اور اِنْ شآءَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ تا قیامت ہوتے رہیں گے ۔

امامِ اعظم ابوحنیفہرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے بے پناہ فِرَاسَت وذَکَاوت سے نوازا تھا، بلاشبہ آپ عِلمِ نبوت کے وارث تھے،(تبییض الصحیفۃ، ص 32)آپ مشکل سے مشکل مسئلے کو اتنی آسانی سے حل فرماتے کہ بڑے بڑے عُلَما بھی حیران رہ جاتے اور آپ کی ذِہَانت اور حاضر جوابی کا اعتراف کرتے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کس قَدْر عَقْلمند تھے اس کا اندازہ امامِ شافِعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی کے اسی فرمان سے لگا لیجئے :عورتوں نے امامِ اعظم ابو حنیفہ سے زیادہ عقلمند پیدا نہیں کیا۔(الخیرات الحسان، ص62)

یہاں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے چند انقلابی کارنامے پیش کئے جاتے ہیں: ٭الخیرات الحسان میں ہے: امام ابوحنیفہ نے سب سے پہلے علمِ فِقْہ مُدَوَّن کیا اور اسے اَبواب اور کُتُب کی ترتیب پر مُرَتَّب کیا۔ امام مالک نے اپنی کتاب مُوَطَّأ میں امامِ اعظم کی اسی ترتیب کا لحاظ رکھا ہے۔ (الخیرات الحسان، ص 43) ٭ آپ نے مسلمانوں کو  پیش آمَدَہ اورمُمْکِنہ مسائل کے حل کے لئے ایک مجلس قائم فرمائی جس کے اَرَاکین کی تعداد ایک روایت کے مُطابِق ایک ہزار عُلَما پر مشتمل  تھی جن میں 40 اَفراد مرتبۂ اِجْتِـھَاد پر فائز تھے۔ (جامع المسانید للخوارزمی،ج1، ص33) ٭آپ اپنی رائے سے کوئی بھی مسئلہ لکھواتے، نہ ہی کسی کو اپنی انفرادی رائے کا پابند کرتے بلکہ خوب غورو فکراور بحث ومباحثہ کے بعد جب آخری رائے قائم ہوجاتی تو اسےدَرْج کرواتے اور اگر مجلسِ   اِفتا  کا کوئی خاص رکن موجود نہ ہوتا تو حتمی رائے کو اس کے آنے تک مَوْقُوف فرما دیتے۔(تاریخ بغداد،ج 12، ص308) حتّٰی کہ اگر کسی کا مجلس کے عمومی موقف سے اتفاق نہ ہوتا تو اس رائے کو الگ طور پر اسکے نام کے ساتھ درج کر لیا جاتا ۔ امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے اصحاب حدیث و فِقْہ اور لُغَت و تَصَوُّف کے کیسے ماہر تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے۔

حکایت

 مشہور مُحَدِّث امام وَکِیْع بن جَرّاح کے سامنے کسی نے کہا:امامِ اعظم نے خطا کی۔آپ نے ارشاد فرمایا: امامِ اعظم سے غلطی  کیسے ہو سکتی ہے جبکہ ان کے ساتھ امام ابو یوسف  اور امام زُفَر جیسے قیاس و اجتہاد کے ماہرین تھے، یحییٰ بن ابی زائدہ ،حَفص بن غیّاث،حِبَان اور مَنْدَل جیسے حافِظِینِ حدیث تھے ،لغت و عَرَبیت کے ماہرین میں سے قاسم (یعنی عبد الرحمٰن بن عبداللہ بن مسعود)اور داؤد طائی  و فُضَیْل بن عِیاض جیسی زہد و تقویٰ کی پیکر عظیم ہستیاں موجود تھیں۔ لہٰذا جسکے رُفَقَا اور ہم نشین ایسے ہوں وہ غلطی نہیں کر سکتا، اگر کرے تو یہ لوگ اُسے رجوع کروا دیں گے۔(تاریخ بغداد،ج 14، ص250 )٭ آپ نے سب سے پہلے دلائلِ اَرْبَعَہ کا تعین کیا اور زمانۂ تابعین میں اِجْتِہَاد و فتویٰ دینا شروع کر دیا۔(جامع المسانید للخوارزمی،ج1، ص27) ٭کتابُ الفرائض اور کتابُ الشُّروط کو وضع فرمایا۔ (ایضاً، ص34) ٭علمِ احکام مُسْتَنْبَط فرمایا اور اجتہاد کے اصول و ضَوَابِط کی بنیاد رکھی۔ (ایضاً،ص35)


Share