دار الافتاء اہلسنّت (دعوتِ اسلامی)مسلمانوں کی شرعی رہنمائی میں مصروفِ عمل ہے۔ تحریراً، زبانی، فون اور دیگر ذرائع سے ملک وبیرونِ ملک سے ہزار ہا مسلمان شرعی مسائل دریافت کرتے ہیں۔ جن میں سے دو منتخب فتاویٰ ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں۔
نماز میں کھانسنا
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ نماز میں بہت دیر تک کھانسنے کی نوبت آجائے جس کی وجہ سے تین سُبْحٰنَ اللہ کی مقدار تاخیر بھی ہوجاتی ہو تو ایسی صورت میں کیا سجدۂ سہو وغیرہ کرنا ہوگا؟ سائل:محمدشفیع عطاری(5-E،نیوکراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عذر کی بنا پر مثلاً کھانسنے کے سبب بالفرض اگر تین مرتبہ سُبْحٰنَ اللہ کہنے کی مقدار قراءَت یا تَشَہُّد وغیرہ میں سُکُوت ہوجائے یا فرض و واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے تو اس سے نماز پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور اس صورت میں سجدۂ سہو بھی لازم نہیں ہوتا۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
الجواب صحیح عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری |
|
کتبــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو عبداللہ محمد سعید عطاری مدنی |
بیوہ کی عِدّت اورغیر شرعی
وصیت پر عمل کرنا کیسا؟
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بڑی بہن کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے انہوں نے اپنی زندگی ہی میں میری بہن کو یہ وصیت کی تھی کہ فقط چالیسویں تک عِدَّت کرنا، اب میری بہن اور گھر کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ چالیسویں تک ہی عدت ہوگی کیونکہ شوہر نے اس کی وصیت کر دی تھی مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا شوہر کی اس وصیت پر عمل کیا جائے گا یا نہیں؟ اور جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اس کی عدت کتنی ہوتی ہے؟نوٹ:عورت حمل سے نہیں ہے۔سائل:محمد ہاشم(پاپوش نگر،باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اور وہ حمل سے نہ ہو تو اس کی عدت 4ماہ 10دن ہے یہ اس کو مکمل کرنا ہوں گے اور شوہر کی وصیت چونکہ غیر شرعی ہے لہٰذا اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ وصیت کا حکم ہی یہی ہے کہ اگر کسی ایسے کام کی وصیت کی جو شریعتِ مُطَہَّرہ کے قوانین کے خلا ف ہو تو مرنے والے کی ایسی وصیت کا کوئی اعتبار نہیں یعنی اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اِرشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًاۚ ﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اور تم میں جو مَریں اور بیبیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔ (پ 2، البقرۃ:234)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور یہ بات بھی ذِہن میں رہے کہ اگر اسلامی مہینہ کی پہلی یا آخری تاریخ کو انتقال ہوا تو چار ماہ دس دن یوں پورے کرنے ہیں کہ مکمل چار ماہ گزاریں (یہ مہینے چاہے انتیس کے ہوں چاہے تیس کے) اور پھر مزید دس دن۔
اور اگر دورانِ ماہ انتقال ہوا تو 130دن پورے کرنے ہیں یعنی انتقال کے وقت سے لے کر مکمل 130دن گزارنے ہیں۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
الجواب صحیح عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری |
|
کتبــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو مصطفی محمد ماجد رضا عطاری مدنی |
مہر کی ادائیگی میں روپے کی قدر کا اعتبار
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کم و بیش 36سال قبل ہوئی تھی اور 11000حق مہر طے ہوا تھا ابھی تک میں نے مہر ادا نہیں کیا تھا اب جب میں نے مہر ادا کرنا چاہا تو میری زوجہ کا کہنا ہے کہ 11000تو اس وقت طے ہوا تھا مگر اب تو روپے کی ویلیو (Value) بڑھ گئی ہے لہٰذا اب میں بطورِ مہر آپ سے1,50,000ایک لاکھ پچاس ہزار لوں گی۔ اب مجھے معلوم کرنا ہے کہ کیا مہر میں اس طرح روپے کی ویلیو (Value) کا اعتبار ہوگا یا نہیں اور مجھے کتنا مہر ادا کرنا ہوگا؟سائل:سید عبد المختار (پی،آئی،بی کالونی،باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جتنا مہر مقرر ہوا تھا اتنا ہی دینا ہوگا کرنسی کی ویلیو (Value) زیادہ ہونے کا یہاں کوئی اعتبار نہیں ہے چنانچہ صدرُ الشَّریعہ بدرُالطَّریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں:مہر کم از کم دس درہم(2تولہ ساڑھے 7ماشہ چاندی) ہے خواہ سکّہ ہو یا ویسی ہی چاندی یا اس قیمت کا کوئی سامان، اگر درہم کے سوا کوئی اور چیز مہر ٹھہری تو اس کی قیمت عَقْد (نکاح)کے وقت دس دِرْہَم سے کم نہ ہو اور اگر اس وقت تو اسی قیمت کی تھی مگر بعد میں قیمت کم ہوگئی تو عورت وہی پائے گی پھیرنے کا اسے حق نہیں۔(بہارِ شریعت،ج2، ص64،مکتبۃ المدینہ،باب المدینہ کراچی) وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
الجواب صحیح عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری |
|
کتبــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو مصطفی محمد ماجد رضا عطاری مدنی |
ایک ساتھ دو الگ الگ برسیوں کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد کی پہلی برسی اور میری ساس کی دوسری برسی ایک ہی مہینے میں آرہی ہیں۔ تو کیا میں ایک ہی وقت، ایک ہی جگہ پر دونوں کی فاتحہ خوانی اور برسی کا انعقاد کر سکتا ہوں؟ سائل:محمد رفیق راجہ (نشتر روڈ،باب المدینہ کراچی)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں! آپ اپنے والد اور ساس کی برسی ایک ساتھ کر سکتے ہیں، اس میں کوئی حَرَج نہیں کیونکہ یہ ایصالِ ثواب کی صورت ہے اس میں کسی وقت یا عمل کی تعیین نہیں ہوتی بغیر کسی قید کے جب بھی چاہیں کوئی نیک عمل کر کے میت کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں مگر جب برسی کا دن جس کا نہ ہوگا تو اسے اس کی برسی حقیقتاً نہ کہا جائے گا عرف میں معمولی فرق سے اس قسم کا اطلاق کر دیا جاتا ہے، اس میں حرج نہیں اور اگر ایک ساتھ چند ناموں سے ایصالِ ثواب کیا جائے تو ہر ایک کو پورا پورا ثواب بھی ملتا ہے۔وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہُ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
الجواب صحیح عبدہ المذنب ابو الحسن فضیل رضا العطاری عفا عنہ الباری |
|
کتبــــــــــہ المتخصص فی الفقہ الاسلامی ابو عبداللہ محمد سعید عطاری مدنی |
Comments