جوئے کی 6 صورتیں
میٹھے میٹھے اسلامی
بھائیو! آج کل دنیا میں جوئے کے نِت نئے طریقے رائج ہیں ، ان میں سے 6 یہ ہیں:
(1) لاٹری
اس طریقۂ کار میں
لاکھوں کروڑوں روپے کے انعامات کا لالچ دے کر لاکھوں ٹکٹ معمولی رَقم کے بدلے
فروخت کئے جاتے ہیں پھر قُرعَہ اندازی کے ذَرِیعے کامیاب ہونے والوں میں چند لاکھ
یا چند کروڑ روپے تقسیم کردئیے جاتے ہیں جبکہ بَقِیَّہ افراد کی رقم ڈوب جاتی
ہے،یہ بھی جُوئے ہی کی ایک صورت ہے جو کہ حرام اور جہنم میں لے جانے والا
کام ہے۔
(2)پرائز بانڈ کی پرچی
حکومتِ
پاکستان”200، 750، 1500، 7500، 15000“ روپے کی قیمت کے انعامی بانڈزبینک کے
ذَرِیعے جاری کرتی ہے اورجَدوَل کے مطابِق ہر ماہ قُرعہ اندازی کے ذَرِیعے کروڑوں روپے کے اِنعامات خریداروں
میں تقسیم کرتی ہے ،جس کا انعام نہیں نکلتا اُس کی بھی رَقم محفوظ رہتی ہے وہ اسے
جب چاہے بُھنا (یعنی کیش کروا)سکتا ہے۔ یہ جَواز(یعنی جائز ہونے)کی صورت ہے اور جُوئے میں
داخِل نہیں۔ لیکن اس کے مُتَوازی بعض لوگ انعامی بانڈز کی پرچیاں بیچتے ہیں ان
پرچیوں کی خریدو فروخت، غیر قانونی اور ناجائز و حرام ہے کیونکہ بیچنے والا حکومت
کی طرف سے جاری کردہ پرائز بانڈز اپنے ہی پاس رکھتا ہے(بلکہ بعض اوقات تو پرائز بانڈز بھی
بیچنے والے کے پاس نہیں ہوتے )پرچی بیچنے والا خریدار کو قلیل رَقم کے بدلے پرچی پر محض
ایک نمبر لکھ کر دے دیتا ہے کہ اگر اس نمبر پر انعام نکل آیا تو میں تمہیں
اتنی رَقم دوں گا ۔ انعامی پرچی کا یہ کام بھی جُوا ہے کیونکہ اس میں اِنْعام نہ
نکلنے کی صورت میں خریدار کی رَقم ڈوب جاتی ہے۔
(3) موبائل میسجز (Mobile Messages)اور جُوا
موبائل پرمختلف سُوالات
پر مبنی میسجز بھیجے جاتے ہیں مَثَلاً کونسی ٹیم میچ جیتے گی؟ یا پاکستان کس دن
بنا تھا؟ جس میں دُرُست جوابات دینے والوں
کیلئے مختلف اِنعامات رکھے جاتے ہیں، شرکت کرنے والے کے”موبائل بیلنس“ سے قلیل رقم
مَثَلاً دس روپے کَٹ جاتی ہے، جن کا انعام نہیں نکلتا ان کی رَقم ضائع ہوجاتی ہے،یہ
بھی جُوا ہے جو کہ حرام اورجہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔
(4) مُعَمَّہ
اس میں ایک یا ایک سے
زیادہ سُوالات حل کرنے کے لئے دئیے جاتے ہیں جس کا حل منتظمین کی مرضی کے مطابِق
نکل آئے اُسے انعام دیا جاتا ہے، انعامات کی تعداد تین یا چار یا اس سے زائد بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا دُرُست حَل زیادہ تعداد
میں نکلیں توقُرعَہ اندازی کے ذَرِیعے فیصلہ ہوتا ہے ۔اس کھیل میں بَہُت
سارے افراد شریک ہوتے ہیں، ان کی شرکت دوطرح سے ہوتی ہے: (1) مفت (2)معمولی فیس دے
کر،اگر شُرَکَا سے کسی قسم کی فیس نہ لی جائے تو اورکوئی مانِع شَرعی نہ ہونے کی
صورت میں اس انعام کا لینا جائز ہے۔جس میں شُرَکَا سے فیس لی جاتی ہے اُس میں
اِنعام ملے یا نہ ملے رقم ڈوب جاتی ہے ،یہ صورت جُوئے کی ہے جو کہ حرام اور جہنَّم
میں لے جانے والا کام ہے۔
(5)پیسے جمع کرکے قرعہ اندازی کرنا
بعض افراد یا دوست
آپس میں تھوڑی تھوڑی رَقم جمع کر کے قُرعَہ اندازی کرتے ہیں کہ جس کا نام نکلا
ساری رقم اس کو ملے گی ،یہ بھی جُوا ہے کیونکہ بَقِیَّہ افراد کی رقم ڈوب جاتی ہے ۔
اِسی طرح بعض اوقات پیسے جمع کرکے کوئی کتاب یا دوسری چیز خریدی جاتی ہے کہ جس کا
نام قُرعَہ اندازی میں نکل آیا اسے یہ کتاب دے دی جائے گی یہ بھی جُوا ہی ہے ۔ یاد
رہے کہ بعض کمپنیاں اپنی مَصْنُوعات خریدنے والوں کو قُرعہ اندازی کر کے اِنعامات
دیتی ہیں یہ جائز ہے کیوں کہ اس میں کسی کی بھی رَقم نہیں ڈوبتی۔
(6)مختلف کھیلوں میں شرط لگانا
ہمارے یہاں مختلف
کھیل مَثَلاً گُھڑ دَوڑ، کرکٹ،کَیرم، بِلیرڈ، تاش
، شطرنج وغیرہ دو طرفہ شرط لگا کر کھیلے جاتے ہیں کہ ہارنے والا جیتنے والے کواتنی
رقم یا فُلاں چیز دے گا یہ بھی جوا ہے اور ناجائز وحرام۔ کیرم اوربِلیرڈ کلب وغیرہ
میں کھیلتے وَقت عُمُوماً یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ کلب کے مالک کی فیس ہارنے والا
ادا کریگا، یہ بھی جُوا ہے۔ بعض”نادان“ گھروں میں مختلف کھیلوں مَثَلاً تاش
یالوڈو پر دو طرفہ شرط لگاکر کھیلتے ہیں اور کم علمی کے باعِث اِس میں کوئی حرج
نہیں سمجھتے وہ بھی سنبھل جائیں کہ یہ بھی جُوا ہے اورجُوا حرام ا ور جہنَّم میں
لے جانے والا کام ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،
ص188تا190)
جُواریوں کی صُحبت کا بھیانک انجام پنجاب(پاکستان) کے ایک محلے میں عجیب وغریب بدبو محسوس
ہونے لگی، عَلاقے والوں کی خوب جُستجو کے بعد کہیں جا کر بدبوکا سُراغ ملا،وہ بدبو ایک
بند گھر سے آرہی تھی۔چُنانچِہ پولیس کو اطِّلاع دی گئی۔جب پولیس والے لوگوں کی
موجودگی میں تالا توڑ کر گھر کے اندر داخِل ہوئے تو یہ دیکھ کر سب کے رُونگٹے کھڑے
ہوگئے کہ وہاں چارپائی پر ایک جوان آدمی کی لاش پڑی تھی اور اس کے بعض حصے گل سڑ
چکے تھے اور ان میں کیڑے رِینگ رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر بچّوں سمیت کئی افرادبے
ہوش ہوگئے۔ تحقیق کرنے پرپتا چلا کہ یہ نوجوان محنت مزدوری کرنے کے لئے اِس عَلاقے
میں آیا تھا، کرائے کے مکان میں رِہائش پذیر تھااور بعض جُواریوں سے اس کی دوستی
تھی۔ایک دن یہ نوجوان اپنے دوستوں سے جُوا میں بَہُت ساری رقم جیت گیا،ہارے ہوئے
جواری دوستوں نے ہاری ہوئی رقم لُوٹنے کے لئے اس کے گلے میں پھندا کَسا اور
بجلی کے کرنٹ لگا لگا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا،پھر اسے بے گوروکفن چھوڑ کر تالا
لگا کر فِرار ہوگئے۔(نیکی کی دعوت، حصہ اول،ص290)
جوئے سے توبہ کا طریقہ
جُوا کھیلنے والا اگر
نادم ہوا تو اُس کو چاہئے کہ بارگاہِ الٰہیعَزَّ وَجَلَّ میں سچّی توبہ کرے مگر جو کچھ مال جیتا ہے وہ بدستور حرام
ہی رہے گا اس ضِمْن میں راہنمائی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہل سنّت، امام
اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:جس قدر مال جوئے میں کمایا
محض حرام ہے اور اس سے بَراء َ ت (یعنی نَجات)کی یِہی صورت ہے کہ جِس جِس سے جتناجتنا مال جِیتاہے اُسے
واپَس دے، یا جیسے بنے اُسے راضی کرکے مُعاف کرالے۔ وہ نہ ہو تو اُس کے وارِثوں کو
واپَس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالِغ ہوں ان کا حصّہ اُن کی رِضامندی سے مُعاف
کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس کی مُعافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا
پتا کسی طرح نہ چلے، نہ اُن کا، نہ اُن کے وَرَثہ کا ، اُن سے جس قَدَر جیتا تھا
اُن کی نیّت سے خیرات کردے، اگرچِہ (خود) اپنے (ہی) محتاج بہن بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔ آگے چل کر
مزید فرماتے ہیں:غَرَض جہاں جہاں جس قَدَر یاد ہو سکے کہ اِتنامال فُلاں سے ہار
جیت میں زیادہ پڑاتھا، اُتنا تو انہیں یا اُن کے وارِثوں کو دے، یہ نہ ہوں تواُن
کی نیّت سے تصدُّق (یعنی صدقہ )کرے، اورزیادہ پڑنے کے یہ
معنیٰ کہ مَثَلًا ایک شخص سے دس بار جُوا کھیلا کبھی یہ جیتا کبھی یہ، اُس(یعنی سامنے والے جواری)کے جیتنے کی(رقم کی)مقدار مَثَلًا سو روپے کو
پہنچی، اور یہ(خود)سب دَفعَہ کے مِلا کر سوا
سو جیتا، تو سو سو برابر ہو گئے، پچیس اُس (یعنی سامنے والے جواری)کے دینے رہے۔ اِتنے ہی اسے واپس دے۔ وَعَلٰی ھٰذَا القِیاس (یعنی اور اسی پر قیاس کر لیجئے) اورجہاں یاد نہ آئے کہ(جُوا کھیلنے والے)کون کون لوگ تھے اور کتنا(مال جُوئے میں جیت)لیا، وہاں زیادہ سے زیادہ
(مِقدار کا) تخمینہ (تَخ۔مِی ۔ نَہ ۔ یعنی
اندازہ)لگائے کہ اِس تمام مدّت میں
کس قَدَر مال جوئے سے کمایا ہوگا اُتنا مالِکوں(یعنی اُن نامعلوم جواریوں) کی نیّت سے خیرات کردے،
عاقِبت یونہی پاک ہوگی۔ وَاللہ
تَعَالٰی اَعْلَم۔(فتاوٰی رضویہ ،ج19، ص651)
اے جُواری تُو جوئے سے باز آ |
ورنہ پھنس جائے گا جس دن تُو مرا |
ہو گیا تجھ سے خدا ناراض اگر |
قبر سن لے آگ سے جائیگی بھر |
(وسائلِ بخشش مرمم، ص713) |
Comments