میرابچپن اور جوانی کے ابتدائی ایام باب المدینہ (کراچی) کے اولڈ سٹی ایریا میں گزرے، ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کی پندرہویں رات پٹاخوں کی رات ہے۔ جب یہ رات آتی تو نوجوان ایک دوسرے کو یہ کہتے کہ ”پٹاخوں کی رات آگئی، پٹاخوں کی رات آگئی۔“ میں دیکھتا تھا کہ کئی جگہوں پر شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کا چاند نظر آتے ہی آتش گیر مادہ، بارود، پٹاخے اور آتش بازی کادیگرسامان پسِ پردہ سجا کر رکھا جاتا جسے خرید کر بچےبے دریغ استعمال کرتے۔ شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کی پندرہویں رات آنے سے قبل ہی ماں باپ بچوں کو یہ سامان خریدنے کے لئے رقم دیتے اور کچھ خود ہی خرید کر لے آتے۔ جب یہ رات شروع ہوتی تو چاروں طرف سے آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔
اسی ماحول میں ایک وقت گزارا، پھر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مجھے غالباً 1991ء میں دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر آیا، مدنی ماحول سے وابستہ ہونے کے بعد پتا چلا کہ شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کی پندرہویں شب پٹاخے کی رات نہیں بلکہ جہنم کی آگ سے براءت (چھٹکارے) کی رات ہے۔ اس طرح کے فرامینِ مصطفےٰ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے بھی آگاہی ہوئی:(1) میرے پاس جبرائیل (عَلَیْہِ السَّلَام) آئے اور کہا یہ شَعْبَانکی پندرَہویں رات ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جہنّم سے اِتنوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بَنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر مشرِک اور عداوت (دشمنی) والے اور رِشتہ کاٹنے والے اور (تکبُّرکے ساتھ ٹَخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والِدَین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کے عادی کی طرف نَظَرِ رَحْمت نہیں فرماتا۔ (شعب الایمان، 3/383، حدیث: 3873) (2)جب پندَرَہ شَعْبَانکی رات آئے تو اس میں قِیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزہ رکھو۔ بے شک اللہ تعالیٰ غُرُوبِ آفتاب سے آسمانِ دنیا پر خاص تجلّی فرماتا اور کہتا ہے:ہے کوئی مجھ سے مغفِرت طَلَب کرنے والا کہ اُسے بَخْش دوں! ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اُسے روزی دوں! ہے کوئی مُصیبت زدہ کہ اُسے عافِیَّت عطا کروں! ہے کوئی ایسا! ہے کوئی ایسا! اور یہ اُس وَقْت تک فرماتا ہے کہ فَجْرطُلُوع ہو جائے۔(ابنِ ماجہ، 2/160، حدیث:1388) اِنہی فضائل کی وجہ سے شب براءت کے موقع پر اکثر مساجِد میں شب بیداری کا اِہتمام کیا جاتا ہے۔عاشقانِ رسول عبادت کے ساتھ ساتھ ایسے پسندیدہ کام بھی کرتے ہیں مثلاً قراٰن خوانی کرنا، اپنے مرحومین اور دیگر مسلمانوں کے ایصالِ ثواب کے لئے کھانا کھلانا، قبرستان حاضرہونااور فاتحہ پڑھنا ، فقرا و مساکین کی مدد کرنا وغیرہ۔ ان نیک اعمال سے ایمان کوتقویت ملتی ، قلبی و روحانی سکون ملتااور آخرت کی تیاری کا سامان ہوتا ہے۔
شبِ براءت کیسے گزاریں؟
شبِ بَرَاءَ ت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں اس لئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں 14 شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کوبھی روزہ رکھاجاتاہے تاکہ اَعمال نامے کے آخری دن بھی روزہ ہو۔ 14شعبان کومساجدمیں عصر کی نمازباجماعت پڑھ کر وَہیں نفل اعتکاف کیا جاتاہے تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہو نے کے آخر ی لمحات میں مسجِد کی حاضِری، اعتکاف اور انتظارِ نماز وغیرہ کا ثواب لکھا جائے۔ غروبِِ آفتاب کے بعدروزہ افطارکیا جاتاہے ۔نمازِمغرب باجماعت اداکرنے کے بعدچھ نوافل پڑھے جاتےہیں۔ سورۂ یٰسٓکی تلاوت کی جاتی ہے اور دعائے نصف شعبان بھی پڑھی جاتی ہے یوں شب براءت کا آغازہی نیکیوں سے کیا جاتا ہے۔(ان نوافل کوادا کرنے کا طریقہ امیرِ اہلِ سنت کے رسالے ”آقا کا مہینا“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) سے پڑھ لیجئے اسی میں دعائے نصف شعبان بھی ہے) اس کے بعد عاشقانِ رسول کھانا کھاتے ہیں نمازِ عشاء باجماعت ادا کی جاتی ہے، پھر اجتماعِ ذکر ونعت کا آغاز ہوجاتا ہے، میرے شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ”مدنی مذاکرہ“ فرماتے ہیں، مبلغینِ دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات کرتے ہیں، اجتماع کے اختتام پر پندرہ شَعْبَانُ الْمُعَظَّم کے روزے کے لئے سَحری کا اہتمام کیا جاتا ہے، شرکائے اجتماعات نمازوں کی پابندی اور سنتوں بھری زندگی گزارنے کے عزم کے ساتھ گھروں کو جاتے ہیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شب براءت بڑی عظمتوں اور برکتوں والی رات ہے مگر افسوس! صد افسوس! آج بھی ہمارے معاشرے میں شب براءت کے بارے میں درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک تعداد اس رات کو غفلت بلکہ گناہوں میں گزارتی اور اس کی برکتوں سے محروم ہوجاتی ہے، جس میں آخرت کا سخت نقصان ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیاوی نقصانات کا بھی سامناہوتاہے جس کا اندازہ اخبارات کی مندرجہ ذیل خبروں سے لگایا جاسکتاہے: ٭10مئی 2016ء مرکزالاولیا (لاہور،پاکستان) ایک بچے نے ماچس پٹاخہ چلا کر ہمسائے کے گھر پھینک دیا ،جس سے گھر میں آگ لگنے سے لاکھوں روپے مالیت کا سامان جل کرتباہ ہو گیا۔ ٭23مئی 2016ء رانی پور(باب الاسلام سندھ،پاکستان) میں پٹاخوں سے بجلی کی تاریں جل گئیں۔ ٭تھل ( پاکستان) ماچس پٹاخے سے جھگی میں آگ لگ گئی، 5 سالہ بچہ آگ سے جھلس کر جاں بحق ہو گیا۔ ٭ 07 فروری 2010ءیوپی ہند کے علاقے سلطانپور میں پٹاخوں سے چھپر میں آگ لگ گئی اور ایک ہی خاندان کے 14 افراد زندہ جل گئے۔ ٭12نومبر 2015ء کٹیہار، ہند میں پٹاخوں سے دوگھروں میں آگ لگ گئی،جس سے دونوں گھر جل کر راکھ ہوگئے۔
پٹاخوں کے علاوہ اب تو دنیا بھر میں آتش بازی کا ایک عجیب وغریب سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ دنیا بھر میں آتش بازی کا مظاہرہ کرنے کے لئے کی جانے والی سالانہ خرید و فروخت کی رقم کا مجموعی طور پر تخمینہ سامنے لایا جائے تو کروڑوں ڈالر(اربوں روپے) بنے گا۔دنیابھر میں آتش بازی کے واقعات میں سالانہ سینکڑوں افراد ہلاک اور کئی لاکھ زخمی ہوجاتے ہیں۔یہ واقعات مختلف قومی و مذہبی تہواروں اور سالِ نَو کے جشن پر کی جانی والی آتش بازی کے دوران پیش آتے ہیں۔ چند اخباری رپورٹس ملاحظہ فرمائیے: ٭یکم جنوری 2005ءارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں آتش بازی کے نتیجے میں آگ لگ گئی، کم از کم 200 افراد جل کر ہلاک اور400سے زائد شدید زخمی ہو گئے٭2002ءبرطانیہ میں نیو ایئر نائٹ کی آتش بازی نے 1362 افراد کو متأثر کیا ، متعدد لوگ اپنے اعضا سے محروم ہوئے، چالیس گھروں کو آگ لگی، 500 گاڑیاں تباہ، 4825 جانور جل کر مرگئے ٭2004ء پیراگوئے میں آتش بازی کے سبب 400افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے٭ نیدرلینڈ کے ایک شہر میں آتش بازی کی فیکٹری میں 900 کلو دھماکے دار مواد پھٹنے سے 23 افراد ہلاک جبکہ 947 زخمی ہوگئے۔دھماکے سے 100 ایکڑ اراضی تک بڑی تباہی ہوئی، 15 گلیوں پر مشتمل 1500 عمارتوں کو نقصان پہنچا ، جبکہ 400 گھر مکمل تباہ ہوگئے ۔ تباہی کے سبب 1250 افراد بے گھر ہو گئے۔ نقصان کا تخمینہ(اندازہ) 454 ملین یورو ، یعنی 50 کروڑ 94 لاکھ 56 ہزار ڈالرز لگایا گیا ہے۔
آتش بازی کا شرعی حکم
امامِ اہل سنت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: ”آتش بازی جس طرح شادیوں اور شبِ براءت میں رائج ہے بیشک حرام اور پورا جُرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال(مال کو ضائع کرنا) ہے، قرآنِ مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا: قال اللہ تعالٰی﴿وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا(۲۷)﴾(پ15،بنی اسراءیل:26-27)
(ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا، بیشک اُڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے ) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے)(فتاوی رضویہ،ج23، ص279)
آتش بازی کاموجِدکون؟
آتش بازی کے متعلق مشہور یہ ہے کہ نمرود بادشاہ نے ایجاد کی جبکہ اُس نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کو آگ میں ڈالا اور آگ گلزار ہوگئی تو اسکے آدمیوں نے آگ کے اناربھر کر اُن میں آگ لگا کر حضر ت خلیلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کی طر ف پھینکے۔(اسلامی زندگی، ص77)
اِس لئے خودبھی اس سے بچئے اوراپنے بچوں کوبھی بچائیے۔ میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ خدارااپنے حال پر رحم فرمائیے، دنیا وآخرت کے نقصانات سے بچنے کے لئے اپنے اندرتبدیلی لائیے۔آنے والی شبِ براءَت کے مبارک لمحات کو پٹاخوں اور آتش بازی میں برباد کرنے کے بجائے عبادت میں گزارئیےاوردن کا روزہ بھی رکھئے۔ اللہ تعالٰی عمل کی توفیق عطافرمائے ۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭… دعوت اسلامی کی مرکزی شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطاری
Comments