امام اعظم ابو حنیفہ / محدث اعظم پاکستان اور خدمت حدیث / حضرت سیّدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ

تذکرۂ صالحین

تذکرہ  امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ

ابو عاطر عطاری مدنی

ماہنامہ شعبان المعظم 1438

کوفہ(عراق) وہ مبارک شہر ہےجسےستّر اصحابِِ بدراوربیعتِ رضوان میں شریک تین سوصحابۂ  کرام  نےشرفِ قیام بخشا۔ (طبقات کبریٰ، 6/89)آسمانِ ہدایت کے ان چمکتے دمکتے ستاروں نے کوفہ کو علم وعرفان کاعظیم مرکزبنایا۔اسی اہمیت کے پیش نظر اِسے کنز الایمان(ایمان کا خزانہ)اورقبۃُ الاسلام(اسلام کی نشانی) جیسے عظیم الشان القابات سے نوازا گیا۔جب80ہجری میں امامِ اعظم ابوحنیفہ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادت ہوئی تو اس وقت شہر کوفہ  میں  ایسی  ایسی ہستیاں موجود تھیں   جن میں  ہر ایک آسمان ِ علم  پر آفتاب بن کرایک عالم کو منوّر کررہا تھا۔(طبقات کبریٰ، 6/86، اخبارابی حنیفۃ،ص17) امامِ اعظم کانام نُعمان اور کُنْیَت ابُوحنیفہ ہے۔آپ نے ابتداء میں  قراٰن پاک حفظ کیاپھر 4000 علما و محدّثین کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام  سے علمِ دین حاصل کرتے کرتے ایسے جلیل القدرفقیہ و محدِّث بن گئے کہ  ہر طرف آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے چرچے ہو گئے۔ (تھذیب الاسماء،2/501، المناقب للکردری، 1/37تا53، عقودالجمان، ص187) آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نےصَحابۂ کِرام   عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کی ایک جماعت سے  مُلاقات کا شَرَف حاصل فرمایا، جن میں سے حضرت  سیّدنا انس بن مالک،حضرت سیّدناعبداللہ بن اوفیٰ، حضرت سیّدنا سہل بن سعد ساعدی اور حضرت سیّدنا ابوالطفیل عامر بن واصلہ  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کا نام سرفہرست ہے۔ یوں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کو تابعی ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

(شرح مسند ابی حنیفۃ لملاعلی قاری، ص581ملخصاً)

حکایت امام اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتےہیں: 96 ہجری کو 16سال کی عمرمیں والدگرامی (حضرت ثابت  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ )کے ساتھ حج کیا، اس دوران میں نے ایک شیخ کو دیکھا جن کے ارد گرد لو گ جمع تھے،میں نے والدِمحترم سے عرض کی:یہ ہستی کون ہے؟ انھوں  نے بتایا:یہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ   ہیں۔میں نے عرض کی: ان کے پاس  کون سی چیز ہے؟ فرمایا: ان کے پاس نبیِّ اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے سنی ہوئی احادیث ِمبارکہ ہیں۔ یہ سُن کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ آگے بڑھے اورصحابی ٔ رسول سے براہِ راست ایک حدیث پاک سننے کا شرف حاصل کیا۔                          (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص18)

قابل رشک اوصاف اللہ  عَزَّ وَجَلَّ نےآپ کو ظاہری و باطنی حسن  وجمال  سے نوازا تھا۔ آپ کاقَد دَرمیانہ اور چہرہ نہایت حسین  تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عمدہ لباس اور جوتے استعمال فرماتے، کثرت سے خوشبو استعمال فرماتےاوریہی خوشبو آپ کی تشریف آوری کا پتہ دیتی۔ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہونے والے کلمات پھول کی پتیوں سے زیادہ نرم ہوتے اورلفظوں کی مٹھاس کانوں میں رَس گھول  دیتی، آپ کو کبھی غیبت کرتے نہیں سنا گیا۔

حکایت ایک مرتبہ حضرت ابن ِ مبارک  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے حَضْرتِ سیِّدُنا سُفْیان ثوری  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ  ِالْقَوِی سےآپ کے اِس وصف  کا تذکرہ یوں کیا: امامِ اعظم ابُوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  غیبت سےاتنےدُور رہتے ہیں کہ میں نے کبھی ان کو دُشْمن کی غیبت کرتے ہوئے بھی نہیں سُنا۔ (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص:42) آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   رضائےالٰہی کو ہر شئی پر ترجیح دیتے۔ (تہذیب الاسماء، 2/503، 506، اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص42) آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علماو مشائخ کی اعانت پر زرِّ کثیر خرچ فرماتے۔                   (اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ،ص 42)

آپ  کے جلیل القدر شاگرد امام ابوىوسف رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ 20سال تک مىری اور مىرے اہل و عىال کى کفالت فرماتے رہے۔ (الخیرات الحسان ، ص 57)آپ کسى کو کچھ عطا فرماتے اور وہ اس پر آپ کا شکریہ ادا کرتا تو اس سے فرماتے:اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ  کا شکرادا کرو کیونکہ یہ رزق اللہ  عَزَّوَجَلَّ نےتمہارےلئےبھیجاہے۔ (الخیرات الحسان ، ص 57)امامِ اعظم  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زہدوتقویٰ کےجامع،والدہ کے فرمانبردار، امانت و دیانت میں یکتا، پڑوسیوں سےحسنِ سلوک میں بے مثال تھے،بےنظیر سخاوت اورمسلمانوں  کے ساتھ ہمدردی وخیرخواہی جیسےکئی اوصاف نے آپ کی ذات کونمایاں کردیاتھا۔(اخبار الامام اعظم ابی حنیفہ،ص41تا 49،63،تبییض الصحیفۃ، ص131) آپ کے حسن  اخلاق سے متعلق حَضْرت بُکَیْر بن مَعْرُوْف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتےہیں:میں نےاُمَّتِ مصطفےٰ میں امام ابُو حنیفہ سے زیادہ حُسْنِ اَخْلاق والا کسی کو نہیں دیکھا۔ (الخیرات الحسان، ص56)

 حکایت حضرت سیِّدُنا شفیق بلخی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے ساتھ جا رہا تھا کہ ایک شخص آپ کو دیکھ کر چُھپ گیا اور دوسرا راستہ اختیار کیا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اسے پُکارا، وہ آیا تو پوچھا کہ تم نےراستہ کیوں بدل دیا؟ اور کیوں چھپ گئے؟ اس نےعرض کی:میں آپ کا مقروض ہوں، میں نے آپ کو دس ہزار درہم دینے ہیں جس کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اور میں تنگدست ہوں، آپ سے شرماتا ہوں۔ امام اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا: میری وجہ سے تمہاری یہ حالت ہے، جاؤ! میں نے سارا قرض تمہیں معاف کر دیا۔ (الخیرات الحسان، ص 57)

عبادت و ریاضت امام ِاعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم  دن بھر علمِ دین کی اِشاعت، ساری رات عبادت ورِیاضت میں بَسرفرماتے۔آپ نے مسلسل تیس سال روزے رکھے،تیس سال تک ایک رَکعَت میں قراٰنِ پاک خَتْم کرتے رہے، چالیس سال تک عِشا کے وُضُو سے فجر کی نَماز ادا کی، ہر دن اور رات میں  قراٰن پاک ختم فرماتے، رمضان المبارک میں 62قراٰن ختم فرماتے اور جس مقام پر آپ کی وفات ہوئی اُس مقام پر آپ نے سات ہزاربار قراٰنِ پاک خَتْم کئے۔(الخیرات الحسان، ص50)آپ نے 1500 درہم خرچ کرکے ایک قیمتی لباس سلوا رکھا تھاجسے آپ روزانہ رات کے وقت زیبِ تن فرماتے اور اس کی حکمت یہ ارشاد فرماتے: اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے لئے زِینت اختیار کرنا، لوگوں کے لئے زِینت اختیار کرنے سے بہتر ہے۔ (تفسیرروح البیان ،3/154)رات میں ادا کی جانے والی اِن نمازوں میں خوب اشک باری فرماتے،اس گریہ و زاری کا اثر آپ   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے چہرۂ مبارکہ پر واضح نظر آتا۔                 (اخبارابی حنیفۃ واصحابہ،ص47،الخیرات الحسان،ص54)

ذریعۂ معاش آپ نے حُصُولِ رزقِ حلَال کے لئے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور لوگوں سے بھلائی اورشَرعی اُصُولوں کی پاسداری کاعملی مظاہرہ کرکےقیامت تک کےتاجروں کے لئے ایک روشن مثال قائم فرمائی۔(تاریخ بغداد، 13/356) علمِ فقہ  کی تدوین، ابوابِِ فقہ کی ترتیب اور دنیا بھر میں  فقہ حنفی کی پذیرائی  آپ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے۔ (الخیرات الحسان،ص 43)

وصال  ومدفن 150 ہجری  کو عہدۂ قضا قبول نہ کرنے کی پاداش میں آپ  رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ   کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ آپ  کے جنازے میں تقریبا ًپچاس ہزار افراد نے شرکت کی۔

لاکھوں شافعیوں کے امام حضرت سیّدنا امام شافِعی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نےبغداد میں قیام کےدوران ایک معمول کا ذکر یوں فرمایا: میں امام ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ سےبرکت حاصِل کرتا ہوں، جب کوئی حاجت پیش آتی ہے تو دو رَکعَت پڑھ کر ان کی قَبْرِمبارک کے پاس آتا ہوں اور اُس کے پاساللہ  عَزَّ  وَجَلَّ سے دُعا کرتا ہوں تو میری حاجت جلد پوری ہو جاتی ہے۔آج بھی بغدادشریف میں آپ کا مزارِ فائضُ الاَنْوار مَرجَعِ خَلائِق ہے۔

(مناقب الامام الاعظم، 2/216،سیراعلام النبلاء، 6/537،اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ، ص 94،الخیرات الحسان ، ص 94)

امام اعظم کی مبارک سیرت کے  متعلق مزید جاننے کے لئے امیر اہل سنت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کے رسالے ”اشکوں کی برسات“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔


Share

امام اعظم ابو حنیفہ / محدث اعظم پاکستان اور خدمت حدیث / حضرت سیّدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ

تذکرۂ صالحین

محدثِ اعظم پاکستان اور خدمت حدیث

آصف جہانزیب عطاری مدنی

ماہنامہ شعبان المعظم 1438

دنیا میں کچھ ایسے با کمال لوگ بھی ہوتے ہیں جواپنی زندگی سےبھرپور فائدہ اٹھاتے اورایسے کارہائے نمایاں سر انجام دے جاتے ہیں  کہ ظاہری  زندگی میں ان کے  فیضان کا سورج آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے  اور وصال کے بعد بھی  لوگ ان کا فیض پاتے ہیں۔ مُحدّثِ اعظم پاکستان   حضرت مولانا  ابو الفضل  محمد سردار احمدچشتی  قادری   رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا شمار بھی ایسی با کمال   شخصیات میں ہوتا ہے ۔ 1323ھ / 1905ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ ([i])ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایف۔ اے کرنے مرکزالاولیا لاہور گئےاور وہاں سےشہزادۂ اعلیٰ حضرت  حُجّۃ الاسلام  مولانا حامد رضا خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے ساتھ حصولِ علمِ دین  کے لئے بریلی شریف(یوپی ، ہند) روانہ ہو گئے۔ ([ii])حضرت مولانا  ابو الفضل  محمد سردار احمد ذَکی(ذہین) و مُحدّثِ با کمال تھے۔ ([iii])تمام عُلوم و فُنونِ مُروَّجہ  میں آپ کو مہارت حاصل تھی  لیکن حدیث ِ رسول سے محبت آپ کا خاص وَصف تھا ، آپ  خودفرماتے ہیں : لوگ جب بیمار ہوتے ہیں تو دوائی کھاتے ہیں اور میں حدیثِ مصطفےٰ پڑھاتا ہوں تو مجھے آرام ہو جاتا ہے۔  ([iv]) حدیث پاک سے محبت ہی کے باعث آپ نے زندگی کا اکثر حصّہ درسِ حدیث میں  گزارا۔ دس سال تک دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف (ہند) میں ([v])اور قیامِ پاکستان کے بعد  تادمِ حیات جامعہ رَضَوِیّہ مظہرِِ اسلام سردارآباد ( فیصل آباد) میں درسِ حدیث کی خدمات سر انجام دیں ([vi])اس عرصےمیں سینکڑوں  فُضَلا نے آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے حدیث پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ ([vii])حدیثِ رسول  کی خدمت کی وجہ سے آپ کو مُحدّثِ اعظم پاکستان کہا گیا ([viii])آپ کی حدیث ِ رسول سے محبت کا یہ عالم تھا  کہ دورانِ درس جیسی حدیث ہوتی ویسی ہی  آپ  کی کیفیت ہوتی ، اگر حدیث میں سرکار  صَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے تبسّم کا ذکر ہوتاتوآپ بھی مسکراتے ، اگر گِریَہ و علالت کا تذکرہ ہو تاتو آپ بھی روتے۔ ([ix])دورانِ درس بارہا ایسا نور ظاہر ہوتا کہ جس کے سامنے سورج کی روشنی بھی مدھم پڑ جاتی۔ ([x])

حکایت : ایک مرتبہ ایک عقیدت مند نے آپ کی دعوت کی ، آپ نے دعوت قبول فرمائی ، کھانے کے بعد خُدّام حاضرین جو کھانا کھا چکے تھے ان سے فرمایا : مولانا  خوب کھائیں ، خوب کھائیں ، خُدّام نے آپ کے ارشاد پر دوبارہ کھاناکھایا ، پھر فرمایا : آج میں نے نبی پاک  صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی سرکارِ ابو ہریرہ والی سنّت ادا کی ہے۔ ([xi]) اِس حکایت میں  محدّثِ اعظم  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کا اشارہ بخاری شریف کی اس حدیث پاک کی طرف ہےجس میں سرکارِ دوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابۂ کرام  عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کو سیراب فرمایا اورآخر میں حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ    سے فرمایا : پیو! انہوں نے سیر ہو کر پیا ، پھر فرمایا : پیو!آپ نے سیر ہو کر پیا ، پھر فرمایا پیو! ۔ ۔ الخ۔ ([xii]) فنِ حدیث میں آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو یَدِ طُولیٰ (کمال) حاصل تھا ([xiii])جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  نے  بُخاری  شریف کی صرف پہلی  جلد سے  علمِ غیب ِ مصطفٰے  صَلَّی اللہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے ثبوت پر 220 ، اختیارو فضائلِ رسول پر 150 ، معجزات و کرامات پر 50 ، فضائلِ صحابہ پر 40 ، اصولِ حدیث ، اسماءُ الرجال اور تقلید پر 150احادیث جمع فرمائیں۔  ([xiv])حدیث میں شہرت و کمال ہی کی وجہ سے  حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  جیسے شارِح و مُفسّر بھی  آپ سے حدیث پڑھنے کے خواہشمند  تھے۔  ([xv])عُلمائے عرب و عجم نے آپ کو حدیث کی اجازت دی ، آپ کے تَلامِذہ(شاگرد) جلیلُ القدر مُحدّث بنے ، آپ نے اُمّہاتِ کُتُب (صحاح ستّہ) پر تعلیقات لکھیں ، آپ کے تَلامِذہ نے کُتُبِ حدیث کی شُروحات اور قراٰن پاک کی تفاسیر  لکھیں ([xvi]) جو اِس بات کا بَیِّن ثُبوت ہے کہ آپ حقیقتاً مُحدّثِ اعظم تھے۔ ([xvii])آپ  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کے فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں  شارِحِ بُخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی ، مفسّرِ قراٰن علّامہ محمد رِیاض الدّین قادری ، مُصنّف و مترجم کُتُبِ کثیرہ علّامہ مفتی  فیض اَحمد اُویسی ، مُفسّر قراٰن علّامہ جلال الدّین قادری ، شہزادۂ صدرُ الشّریعہ شیخ الحدیث مفتی عبدالمصطفےٰ ازہری ، شیخ الحدیث مفتی عبدالقیوم ہزاروی ، شارِحِ بخاری علّامہ غلام رسول رَضَوی ، مولانا  محمد عبد الرّشید جھنگوی ، مُصنّفِ کُتُبِ کثیرہ ، شیخ الحدیث  علّامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی اورمفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدّین قادری رَضَوی  رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہم اَجْمَعِیْن  جیسی  جلیل  القدر شخصیات کے نام  قابلِ ذِکر ہیں۔ ([xviii])تما م عُمْردرس و تدریس اور  خدمتِ حدیث میں  مشغول رہنے کے بعد یکم شعبان المعظم  1382ھ کو آپ کا وصال ہوا۔ سُنّی رَضَوی جامع مسجد  سردار آباد ( فیصل آباد) سے متّصل آپ کا مزارِ مبارک  مَرجَع  خلائق ہے۔ ([xix])

 



([i])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص27

([ii])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص33ملخصاً

([iii])   تذکرۂ محدث اعظم پاکستان ، 2 / 35

([iv])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص153

([v])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص54

([vi])   تذکرۂ محدثِ اعظم پاکستان ، 2 / 11

([vii])   تذکرہ محدثِ اعظم پاکستان ، 1 / 13

([viii])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص65ملخصاً 

([ix])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص62ملخصاً

([x])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص63ملخصاً

([xi])   تذکرہ محدثِ اعظم پاکستان ، ص228

([xii])   بخاری ، 4 / 234 ، حدیث : 6452ملخصاً

([xiii])   تذکرۂ محدث اعظم پاکستان ، 2 / 36ملخصاً

([xiv])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص137ملخصاً

([xv])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص62 ملخصاً

([xvi])   تذکرہ محدث اعظم  پاکستان ، 2 / 10

([xvii])   تذکرہ محدث اعظم  پاکستان ، 2 / 39

([xviii])   تذکرہ محدث اعظم  پاکستان ، 2 / 43ملخصاً ، حیاتِ محدثِ اعظم ، ص65ملخصاً

([xix])   حیاتِ محدثِ اعظم ، ص334 ، 339 ماخوذاً۔


Share

امام اعظم ابو حنیفہ / محدث اعظم پاکستان اور خدمت حدیث / حضرت سیّدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ

جن اولیائے کرام  کی برکت سے صوبۂ سندھ کفر و شرک کےاندھیروں سے پاک ہوا،مظلوموں کو ظلم سے نجات نصیب ہوئی اور سندھ کو ”بابُ الاسلام“کہا گیا ان ہستیوں میں سے ایک حضرت سیّدمحمدعثمان مَرْوَنْدی کاظمی حنفی قادِرِی لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذاتِ گرامی بھی ہے۔

نام و نسب

 آپ کی ولادتِ باسعادت ساداتِ کرام کے مذہبی گھرانے میں538ھ بمطابق1143ءکوہوئی۔چہرۂ انور سے مشہور پتھر ”لعل“ کی طرح سرخ کرنیں  نکلتی  محسوس ہوتی تھیں جس کی وجہ سے”لعل“ کے لقب سےشہرت پائی،”شہباز“ کا لقب بارگاہِ امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہسے عطا ہوا جبکہ سلسلۂ قلندریہ نسبت سے قلندر مشہور ہوئے۔ آذربائیجان کے قصبہ مَروَند میں پیدا ہوئے اس لئےآپرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو مَروَندِی کہا جاتاہے۔(فیضانِ عثمان مَروندی، ص9،8،7،5 ملخصا) آپ کے والدِ گرامی حضرت مولانا سیّد کبیرالدینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے وقت کے مشہورعالمِ دین اورسنّتوں کے زبردست عامل تھے جبکہوالدہ ماجدہ حاکمِ مروند کی صاحبزادی ہونے کے باوجود بہت نىک، عبادت گزار اور قناعت و سخاوت جیسی کئی عمدہ صفات کی حامل تھیں۔والدین کےاِن قابل ِرشک اَوصاف کا نتیجہ تھا کہ  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی  شخصیت میں  بچپن ہی سےشوقِ علم اور ذوقِ عبادت جیسے عمدہ خصائل رَچ بس گئے تھے۔(شان قلندر، ص268،262،اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص524ماخوذا)

تعلیم و تربیت

 آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدِ گرامی کے زیرِ سایہ ہوئی، سات سال کى عمر مىں قراٰن مجىد حفظ کىا اور  جلد ہی مُرَوَّجہ عُلُوم و فُنُون مىں بھى مہارت حاصل کرلی۔ حصولِ علم کے سفر کے دوران امام علی رضا،امامِ اعظم ابوحنیفہ،داتا علی ہجویری اور غوثِ اعظم رَحِمَہُمُ اللہ تعالٰی کے مزارات پر بھی حاضری دی۔ بیتُاللہ شریف پہنچ کر حج کرنے اور مدینۂ منورہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے روضۂ اقدس پر حاضر ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔ (اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص529،526،525)

بیعت و خلافت

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیّدابواسحاق ابراہىم قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ  اللہِ الْقَوِی کے دستِ اَقدس پر بیعت ہوئےاورخلافت سے نوازےگئے۔(فیضانِ عثمان مَروندی،ص14)

دینی خدمات

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست مُبلِّغ، بہترین مدرس اوربلند پایہ مصنف تھے،آپ  کی تمام عمر نیکی کی دعوت عام کرنے اور علم ِ دین کی اشاعت میں گزری۔ ایک مدت تک مدرسہ بہاؤ الدىن (مدینۃ الاولیاء ملتان)اورسىہون شرىف مىں قائم مدرسہ’’فقہ الاسلام“ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔آپ کی نیکی کی دعوت سے متأثر ہو کر ہزاروں غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ آپ کی تصانیف ”صرفِ صغیر“ اور” میزانُ الصرف“درسی نصاب میں بھی شامل رہیں۔ (اللہ کےخاص بندےعبدہ، ص522، 531)

وصال و مدفن

آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال 21شعبان المعظم 673ھ میں ہوا۔ (تذکرۂ صوفیائے سندھ،ص205)آپ کا مزار پُرانوار سیہون شریف (ضلع دادو،باب الاسلام، سندھ)میں  آج بھی زیارت گاہِ خاص و عام ہے ۔


Share