(گزشتہ سے پیوستہ)
(14)کامیابی پانے کے لئے محنت
وکوشش بہت ضروری ہے، کیونکہ محنتی کے لئے پہاڑ بھی کنکر اور سُست کے لئے کنکر بھی
پہاڑ جیسا ہوتا ہے۔ محنت سے جی چُرانے والا سونے کو بھی مِٹّی بنا دیتا ہے جبکہ
محنتی شخص مِٹّی کو سونا بنالیتا ہے۔ ایک ہی دَرَجے (کلاس) میں پڑھنے والے طَلَبہ میں سےکچھ
اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ بعض کو معمولی مُلازَمت ہی مل پاتی ہے، اِس فرْق کی ایک وجہ محنت
میں فرْق ہونا بھی ہے۔ (15)کامیاب ہونے کے لئے مقصد وہدف کا تعیّن بہت ضروری ہے ورنہ کوششیں
رنگ نہیں لائیں گی، کم سے کم عقل رکھنے والا شخص بھی ایسی ٹرین یا بس میں سوار
نہیں ہوتا جس کے بارے میں پتا نہ ہو کہ یہ کہاں جائے گی! چنانچہ جو اچھا عالمِ دین
بننا چاہتا ہے تو وہ اُسی راستے پر چلے جو عِلْم کی منزل پر پہنچاتا ہے۔ (16)مِیانہ روی اور اِعتِدال
کی راہ بہت ساری پریشانیوں سے بچا کر کامیابی تک پہنچا دیتی ہے، اپنے اَخراجات
آمدنی کے مطابق رکھئے! یعنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے! ورنہ قرْض و تنگدستی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ (17)مَن پسند
نوکری یا کاروبار کے اِنتِظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دانش مندی نہیں،
انسان سُست وکاہل ہو جاتا ہے اُس کی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہوجاتی ہیں، پھر جب
پسندیدہ کام ملتا ہے تو اُسے کرنے کی ہِمّت وطاقت نہیں ہوتی، یوں وقْت ضائع ہوجاتا
ہے، اِس لئے جو کام ملے اُسے کرنا شروع کر دیجئے۔ (18)جذبات پر قابو پانا
سیکھئے! کیونکہ جذبات میں کئے گئے فیصلے اکثر بعد میں تبدیل کرنے پڑتے ہیں،
اِسلامی اُصولوں کی بنیاد پر فیصلے کریں گے تو اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ اچھے نتائج ملیں گے۔ (19)کبھی
مایوسی کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں، ایک دَر بند ہوتا ہے تو رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے 100 دَر کُھل جاتے ہیں۔ (20)ماضی گزر
چکا، مستقبل ابھی آیا نہیں، لہٰذا مستقبل کی دنیاوی فکروں کو اپنے ذِہْن پر اِتنا
سُوار نہ کریں کہ زمانہ ٔحال بھی ٹینشن میں گزرے۔ (21)لوگ دولت کمانے کے لئے
اپنی صحّت خراب کر لیتے ہیں پھر اُسی رقم کو اپنی صحّت پر خرچ کر دیتے ہیں، ایسوں
کے ہاتھ کیا آیا؟ دولت کو ہی سب کچھ نہ سمجھئے! اگر دولت تمام غموں کا علاج ہوتی
تو کوئی امیر شخص کبھی دُکھی نہ ہوتا، سونے کے لئے نیند کی گولیاں نہ کھاتا، جان
کی سلامتی کے لئے چوروں، ڈاکوؤں اور بھتہ خوروں سے چُھپتا نہ پھرتا۔ (22)اپنے
رویّے میں لچک رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر پریشانی نہ ہو۔
فرضی حکایت
ایک سیٹھ اپنی ذاتی کار
میں سفر پر تھا کہ ایک دم اُس نے دیکھا کہ ایک ٹَرک اُن کی گاڑی کے بالکل سامنے
آچکا تھا، قریب تھا کہ ٹکر ہوجاتی مگر سیٹھ نے اپنے ڈرائیور کو گاڑی کچے پر
اُتارنے کا حکْم دیا جس پر ڈرائیور نے فوراً عمل کیا، لمحے بھر کی تاخیر اُنہیں
موت کے منہ میں پہنچا دیتی، جب سیٹھ نے ڈرائیور سے وضاحت مانگی تو وہ نادان کہنے
لگا کہ ہم صحیح سائیڈ پر تھے، قُصور اُس ٹَرک والے کا تھا، اِس لئےاُصولی طورپر
میں نے پہلے گاڑی کچے میں نہیں اُتاری تھی، اب جہاندیدہ سیٹھ نے اُسے سمجھایا کہ
اگر میں لچک نہ دکھاتا تو تم اپنا اُصول بیان کرنےکے لئے زندہ نہ ہوتے۔
اللہ
عَزَّ وَجَلَّ ہمیں نیک مَقاصِد اپنانے کی توفیق دے
اور کامیابی نصیب فرمائے۔
اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
Comments