نکاح حضرت سیّدنا آدم علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے شروع ہونے والی عظیم عبادت، نسلِ انسانی کے وجود میں آنے اور باقی رہنے کا ذریعہ اور صالحین و عابدین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کی پیدائش کا سبب ہے۔ نکاح اگر شریعت کے مطابق کیا جائے تو شرم و حیا کے حُصُول کے ساتھ ساتھ فراخ دستی اور خوشحالی کا سبب بھی ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اِلْتَمِسُوا الرِّزْقَ بِالنِّكَاحِ یعنی نکاح (شادی) کے ذریعے رزق تلاش کرو۔(جامع صغیر،ص98،حدیث: 1567) حضرت علامہ عبدالرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی اس کی شرح میں فرماتے ہیں:جب شادی کی نیت اچھی ہو تو یہ نکاح برکت اور رزق میں وُسعَت کا سبب بنتا ہے۔(فیض القدیر،ج 2،ص198،تحت الحدیث:1567) شادیوں کے اخراجات: فی زمانہ شادیوں میں لاکھوں لاکھ روپے خرچ کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، مَعَاذَ اللہ لوگ اس کے لئے سُودی قرضہ لینے سے بھی نہیں شرماتے، لاکھوں روپے قرض لے کر شادی تو ہوجاتی ہے مگر دولہا بےچارہ سالہا سال قرض ہی اُتارتا رہتا ہے۔ شادیوں کے بے جا خرچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 2017ء میں ایک متوسط گھرانے میں شادی کی تاریخ طے کرنے کی تقریب ہوئی جس میں اڑھائی مَن (100 کلو) گوشت کا قورمہ تیار کیا گیا۔ دن تاریخ مقرر کرنے کی اس تقریب سے بارات اور دیگر تقریبات میں کئے جانے والے خرچ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ برکت والا نکاح: ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُس نکاح کو برکت والا قرار دیا جس میں فریقین کا خرچ کم ہو چنانچہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔ (مسند احمد، ج9،ص365، حدیث:24583) حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ المنَّان اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: یعنی جس نکاح میں فریقین کا خرچ کم کرایا جائے، مہر بھی معمولی ہو، جہیز بھاری نہ ہو، کوئی جانب مقروض نہ ہوجائے، کسی طرف سے شرط سخت نہ ہو، اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کے تَوَکُّل پر لڑکی دی جائے وہ نکاح بڑا ہی بابرکت ہے ایسی شادی خانہ آبادی ہے، آج ہم حرام رسموں، بے ہودہ رواجوں کی وجہ سے شادی کو خانہ بربادی بلکہ خانہا (یعنی بہت سارے گھروں کے لئے باعثِ) بربادی بنالیتے ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی اس حدیثِ پاک پر عمل کی توفیق دے۔(مراٰۃ المناجیح،ج5،ص11) شادی آسان ہے: اگر ”کُل جہاں کے مالک“ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شہزادی حضرت سیّدتنا فاطمہ زَہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے مبارک نکاح اور دیگر صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی شادیوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شادی کرنا آسان ہے کیونکہ ہمارے لئے رہبر و رہنما یہی ہستیاں ہیں جن کی اتباع دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یاد رکھئے! شادی کے لئے شریعت نے نہ تو کسی شادی ہال کو لازم قرار دیا ہے اور نہ ہی نمود و نمائش، آتش بازی اور فضول خرچیوں کو شادی کا حصہ قرار دیا ہےبلکہ ان میں سے بعض صورتیں تو ناجائز وحرام ہیں۔ نکاح کا اعلانیہ طور پر، مسجد میں اور جمعہ کے دن ہونا مستحب ہے۔(الدرالمختار،ج 4،ص75) نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا: اَعْلِنُوْا ہٰذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوْہٗ فِیْ الْمَسَاجِدِ یعنی نکاح کا اعلان کرو، اسے مساجدمیں منعقد کرو۔(ترمذی،ج 2،ص347،حديث:1091) حضرت مفتی احمدیار خان علیہ رحمۃ الحنَّان اس کے تحت فرماتے ہیں: فقہا فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ نکاح جمعہ کے دن بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں تمام نمازیوں کے سامنے ہو تاکہ نکاح کا اعلان بھی ہوجائے اور ساتھ ہی جگہ اور وقت کی برکت بھی حاصل ہوجائے نیز نکاح عبادت ہے اور عبادت کے لئے عبادت خانہ یعنی مسجد موزوں ہے۔(مراٰۃالمناجیح،ج 5،ص39)حق مہر کتنا ہو؟: مہر مقرر کرتے وقت بھی شریعت کی پاسداری کرنی چاہئے کہ ”کم سے کم مہر دس درہم (یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ (30.618گرام) چاندی یا اس کی قیمت) ہے، اس سے کم نہیں ہو سکتا، خواہ سکّہ ہو یا ویسی ہی چاندی یا اُس قیمت کا کوئی سامان۔“ (بہار ِشریعت ،ج2،ص64) مہر میں اگرچہ کثیر رقم مقرر کرنا بھی جائز ہے لیکن مناسب رقم مقرر کرنا شرعاً محمود (پسندیدہ) ہے کہ رسولِ بے مثال صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: خَیْرُہُنَّ اَیْسَرُہُنَّ صَدَاقاً یعنی عورتوں میں سب سے بہتر وہ عورت ہے جس کا مہر بہت آسانی سے ادا کیا جائے۔(معجمِ کبیر،ج11،ص65، حدیث: 11100) حضرت سیِّدُنا علامہ عبد الرءُوف مناوی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی اس کی شرح میں فرماتے ہیں: عورت کے مہر کا کم ہونا عورت کی برکت اور بہتری کی نشانی ہے اور یہ کامیاب نکاح کے لئے اچّھا شگون ہے۔(فیض القدیر،ج3،ص667، تحت الحدیث: 4117)ولیمے کا کھانا: نکاح کے شکرانے میں دعوتِ ولیمہ سنّت ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سَیِّدَتُنا صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کے بعد جو ولیمہ کیا اُس میں نہ گوشت تھا، نہ روٹی تھی بلکہ ولیمے کے کھانے میں کھجور اورگھی کا حلوہ تیار کیا گیا۔(بخاری،ج 3،ص86، حدیث:4213،ج1،ص148، حدیث: 371) دو عالَم کے مالک و مختار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سَیِّدَتُنا زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا کے نکاح پر پوری ایک بکری سے ولیمہ کیا۔ ایسا ولیمہ ازواجِ مطہرات میں سے کسی کا نہیں کیا۔(بخاری،ج 3،ص453، حدیث:5168) یعنی تمام ولیموں میں یہ بہت بڑا ولیمہ تھا کہ ایک پوری بکری کا گوشت پکا تھا۔(بہارِ شریعت،ج3،ص388) اس ولیمہ کے علاوہ باقی ولیموں میں چھوارے پنیر وغیرہ کھلائے گئے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،ج5،ص73) اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں شادی کے تمام معاملات کو شریعت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments