سایہ عرش دلانے والی نیکیاں(قسط: 01)

کچھ نیکیاں کمالے!

سایہ عرش دلانے والی نیکیاں(قسط01)

*مولانا محمد نواز عطاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

متعدد  احادیثِ مبارکہ میں مختلف اعمال کی بنیاد پر کئی لوگوں کو روزِ قیامت سایۂ عرش نصیب ہونے کی خوشخبری بیان کی گئی ہے آئیے! دیکھتے ہیں کہ وہ کون کون خوش نصیب لوگ ہیں تاکہ ہم خود کو بھی ان میں شامل کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھنا:

رسولِ بے مثال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ پاک بروزِ قیامت ارشاد فرمائے گا:وہ لوگ کہاں ہیں جو صرف میری عزت و جلال کی وجہ سے باہم محبت رکھتے تھے آج کے دن جبکہ میرے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں، میں انہیں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دوں گا۔ ([i])

انسان مفاد کی خاطر تو بیگانوں سے بھی محبت و اپنائیت کا اظہار کرلیتا ہے مگر اس حدیث شریف سے یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں ذاتی مفادات کے بجائے اللہ پاک کی رضا کے لئے  اس کی مخلوق سے بے غرض محبت و اپنائیت رکھنی چاہئے۔

اپنے اَخلاق کو ستھراکرنا:

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام کی طرف وحی فرمائی کہ اے میرے خلیل! بے شک میں نےیہ بات لکھ دی ہے کہ جس نے اپنے اَخلاق کو ستھرا کیا مَیں اُسے اپنے عرش کے سائے میں جگہ دوں گا اور اسے حظیرۃ القدس (یعنی جنّت)سے سیراب کروں گا اور اپنے جوارِ رحمت کا قرب عطا فرماؤں گا۔([ii])

لہٰذا اگر ہم چاہتے  ہیں کہ اپنے رب کو راضی کرکے جنت و  قربِ خدا کے حق دار بن جائیں اور روزِ قیامت کڑی دھوپ کے بجائے عرش کی چھاؤں میں ہوں تو ہمیں اپنے گفتار و کردار اور عادات و اطوار کا جائزہ لے کر خامیوں کو دور کرنا چاہئے تاکہ اخلاق میں نکھار آسکے۔

عرش کا سایہ دلانے والی تین عادتیں:

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کافرمان عالیشان ہے:تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک اُسے اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائے گا:(1)دشواری کے وقت وُضو کرنا (2)اندھیرے میں مسجدوں کی طرف چلنا اور(3)بھوکے کو کھانا کھلانا۔([iii])

ان میں سے پہلے دو کام اگرچہ دِقّت والے ہیں کہ بسا اوقات سردی میں ٹھنڈے اور گرمیوں میں گرم پانی سے  وضو کرنے کی نوبت آجاتی جو کہ مشکل کام ہے لیکن اس روایت میں بیان کی گئی فضیلت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو یہ مشکل، اتنی مشکل محسوس نہیں ہوگی اور تیسرے کام یعنی کھانا کھلانے کی اسلام میں بہت اہمیت ہے بلکہ احادیث میں اسے اسلام کا بہترین عمل قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ہمیں ان کاموں پر کاربند رہنا چاہئے۔

تنگ دست کو مہلت دینا اور ناسمجھ کے ساتھ تعاون کرنا:

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے  حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کویہ فرماتے ہوئے سناہے: اللہ پاک قیامت کے دن اس شخص کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطافرمائے گا جس نے تنگدست کو مہلت دی یاکسی ناسمجھ کے ساتھ تعاون کیا۔([iv])

قراٰنِ پاک میں تنگ دست کو مہلت دینے کا فرمایا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مہلت کے بجائے سِرے سے قرض ہی معاف کردینے کو بہتر قرار دیا گیا ہے اور اس روایت میں تو اس نیک کام پر سایۂ عرش ملنے کی بشارت بھی موجود ہے لہٰذا خیر کیجئے اور خیریت لیجئے۔

طرح کےافراد جو عرش کے سائے میں ہوں گے

ایک حدیثِ پاک میں ان 7افراد کو بھی سایۂ عرش پانے والا بتایا گیا ہے: (1)عادل حکمران(2) وہ نوجوان جس نے اللہ پاک کی عبادت میں اپنی زندگی گزار دی (3)وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگارہے (4)وہ دو شخص جو اللہ پاک کے لئے محبت کرتے ہوئے جمع ہوئے اور محبت کرتے ہوئے جدا ہوئے (5)وہ شخص جسے منصب و جمال والی کوئی عورت گناہ کے لئے بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ پاک سے ڈرتا ہوں (6)وہ شخص جواس طرح چھپا کر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں نے کیا صدقہ کیا (7)وہ شخص جو خلوت میں اللہ پاک کو یاد کرے اوراس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں۔([v])

حضرت سیِّدُنا سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ کی روایت میں جن سات قسم کے افراد کا ذکر ہے ان میں 5 تو گزشتہ روایت میں بھی بیان ہوچکے، مزید دو یہ ہیں(1)وہ شخص جواوقاتِ نماز کے لئے سورج کی رعایت کرتاہو(یعنی وقت میں نماز پڑھتا ہو) اور (2) وہ شخص کہ اگر بولے تو علم کی بات کرے اوراگرخاموش رہے تو حلم کے سبب خاموش رہے۔([vi])

حرام چیزوں سے بچنا،راہ خدا میں پہرا دینا:

ایک روایت میں مزید ان دو افراد کو بھی سایۂ عرش پانے والوں میں شمار کیا گیا ہے: (1)وہ شخص جس نے اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھ کو بچایا(2)وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرادیا۔([vii])

ان تینوں روایات میں جو کام بیان کئے گئے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق اخلاص و عبادت سے، بعض کا رویّے، کردار اور معاشرے کے حسن  و بھلائی سے ہے، لہٰذا ہمیں اسلام کی ان خوبصورت تعلیمات میں حتی المقدور خود کو ڈھالنا چاہئے تاکہ دنیا و آخرت کی بہتری کا سامان ہو۔

تجارت میں سچائی کو اختیار کرنا:

ایک روایت میں ہے کہ وہ تاجر جو خرید و فروخت میں حق کا معاملہ کرتا ہو (اسے بھی سایۂ عرش نصیب ہوگا)۔([viii])

اس فضیلت کے علاوہ بھی ایمانداری سے تجارت کے بہت فضائل روایات میں بیان کئے گئے ہیں جس سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ شریعت کو اعمال کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ مال کی پاکیزگی کس قدر مقصود ہےنیز روایات میں ستھری خرید و فروخت کے لئے دی جانے والی یہ ترغیبات حسنِ معاشرت میں دینِ اسلام کے کردار کو بھی اجاگر کرتی ہیں۔

اللہ پاک ہمیں سایۂ عرش پانے والی نیکیوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ ہفتہ وار رسالہ المدینۃ العلمیہ ،کراچی)



([i])موطاامام مالک،2 / 438، حدیث: 1825

([ii])دیکھئے: المعجم الاوسط ، 5/ 37، حدیث:  6506

([iii])الترغیب الترھیب، 1 / 447، حدیث: 1417

([iv])المعجم الاوسط ،6 / 40، حدیث: 7920

([v])دیکھئے:بخاری، 1 / 236، حدیث:   660-مسلم،ص 399، حدیث: 2380

([vi])کتاب الزھد لامام احمد بن حنبل، ص 173، حدیث 819

([vii])جامع الصغیر، ص 285، حدیث: 4647

([viii])الکامل فی ضعفاء الرجال ، ج8408


Share