Book Name:Safar e Meraj 27th Rajab 1442
“ طَیِّ مکان “ یعنی فاصِلوں کا سمٹ جانا ، قرآن پاک کے ایک دوسرے واقعے سے ثابت ہوتا ہے ، چنانچہ قرآنِ پاک کی سورۃُ النَّمْل آیت نمبر 38تا 40میں مذکور کلام کا خلاصہ و تفسیر یہ ہے : حضرت سلیمان علیہ السَّلام نے ملِکہ بلقیس کے تخت کے مُتعَلِّق سنا جو دوسرے ملک میں سینکڑوں میل کے فاصلے پر تھا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے ملکہ کو اسلام کی دعوت دینے کے مقصد سے اپنے درباریوں سے فرمایا : وہ تخت کون لائے گا؟ ایک طاقتور جن نے کہا : میں آپ کا دربار موقوف ہونے سے پہلے وہ تخت حاضر کردوں گا۔ لیکن اس کے بعد حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام کے وزیر ، اسمِ اعظم کا علم رکھنے والے حضرت آصف بن برخیا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کی : “ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے وہ تخت حاضر کردوں گا “ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پلک جھپکنے میں وہ تخت سامنے موجود تھا۔ اس طرح کی دیگر آیات و احادیث بھی موجود ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے : اللّٰہ پاک قادر ، قدیر ، مُقْتَدِر اور خالق ہے ، وہ اپنی قدرت وشانِ تخلیق کا جیسے چاہے اِظہار فرمائے ، یہ اُس کی شان ہے۔
موجودہ سائنسی دور میں معجزہِ معراج کا سمجھنا اور ماننا مزید آسان ہوچکا ہے ، کیونکہ پہلے لوگ کائنات میں موجود قوانینِ الٰہی سے واقف نہیں تھے تو عقل میں نہ آنے والی چیزوں کا اِنکار کردیتے تھے۔ جیسے اگر کوئی شخص آج سے 1000 سال پہلے دعویٰ کرتا کہ لاکھوں ٹن وزنی لوہے کا بنا ہوا محل ہوا میں اُڑسکتا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے ، لیکن آج ہوائی جہاز کو سب تسلیم کرتے ہیں۔ یونہی 500 سال پہلے اگر کوئی شخص کہتا : ایک بٹن دبانے سے لاکھوں پنکھے ، مشینیں اور چیزیں حرَکت میں آ سکتی اور کروڑوں بلب روشن