Book Name:Hazriye Madinah Or Buzurgo Kay Andaz

ایک کلام میں اِس طرْح سے  ذِہْن بنانے کی کوشش کی ہے :

ارے زائرِمدینہ! تُو خوشی سے ہنس رہا ہے!          دلِ غمزَدہ جو پاتا تو کچھ اَور بات ہوتی

                                                  بِالآخِر اِسی كيفيت(Condition) میں سَفَرِ مدینہ کا آغاز ہوا ، جُوں جُوں منزِل  قریب آتی رہی ، آپ کے عِشق کی شِدّت بھی بڑھتی گئی۔ اُس پاک سَرزمین پر پَہُنْچتے ہی آپ نے جُوتے اُتار لئے۔ اللہ!اللہ! مِزاج ِعشقِ رَسُول سے اِس قدَر آشنا(جان پہچان رکھنے والے) کہ خُود ہی کلام میں فرماتے ہیں :

پاؤں میں جُوتاارے مَحبوب کا کُوچہ ہے یہ                    ہَوش کر تُو ہَوش کَر غافِل! مَدِینہ آگیا

اَمِیْرِ اَہلِسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اُس پاک سَرزمین کے آداب کا اِس قدَر خیال رکھتے کہ  ۱۴۰۶  ھ کے سَفَرِ حج میں آپ کی طبیعت ناسازتھی۔ سَخْت نزلہ ہوگیا ، ناک سے شِدّت کے ساتھ پانی بِہہ رہاتھا۔ اِس کے باوُجود آپ نے کبھی بھی مدینَۂ پاک کی سَرزمین پر ناک نہیں سِنکی بلکہ آپ کی ہرادا (Expression)سے ادب کا ظُہور ہوتا۔ جب تک مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ میں رہے حتّی الاِمکان گُنبدِخضر اکو پِیٹھ نہ ہونے دی۔

کبھی کبھی میٹھے مدینے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں کے جاروب کشوں(صفائی کرنے والوں) کے ہاتھ سے جھاڑولے کر آپ نے مدینے کی گلیوں میں جاروب کشی کی سعادت بھی حاصل کی ہے۔ ا س کی تمنّا کرتے ہوئے ولی کامل ، عاشقِ صادق حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضاخان رَحْمَۃُ اللہِ  عَلَیْہ فرماتے ہیں :

خداخیرسے لائے وہ دن بھی نوریؔ              مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں

اللہہمیں بھی عاشقِ مدینہ ، اَمِیْر ِاَہلسُنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے صَدَقے غمِ مدینہ کی لازوال دَولَت سے سَرفَراز فرمائے اور بار بار سَفَرِ مدینہ کی سعادت اور مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہکی بااَدَب حاضِری نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ