Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair
اس سے کچھ دَیر پہلے حضرت عبدُ الرحمٰن بن عبدُ الرَّبّ اور حضرت بَرِیْر ہَمْدَانی رحمۃُ اللہِ علیہم ا ایک ساتھ کھڑے تھے، حضرت بَرِیر رحمۃُ اللہِ علیہ نے حضرت عبدُ الرحمٰن رحمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ خوش طبعی والی باتیں شروع کر دِیں۔ حضرت عبد الرحمٰن رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: بَرِیر! یہ کونسا وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا...؟ فرمایا: میری قوم جانتی ہے کہ میں سنجیدہ آدمی ہوں لیکن خُدا کی قسم! اس وقت میں بہت خُوش ہوں، ابھی بَس کچھ ہی دَیر بعد شہادت نصیب ہو گی اور ہم جنّت میں پہنچ جائیں گے۔([1])
اللہُ اکبر! کیا نِرالے جذبات ہیں۔ سامنے 22ہزار کا لشکر ہے، شہادت بالکل یقینی ہے، 3دِن سے پانی بند ہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے کھڑی ہیں، بعض لوگ واقعۂ کربلا بیان کرتے ہوئے کربلا والوں کو بہت ہی لاچار، انتہائی بےبَس بنا کر دکھاتے ہیں، جبکہ حالت کیا تھی؟ یہ خوش نصیب اللہ پاک کی رضا میں راضِی اور دِل سے خُوش تھے، آپس میں خوش طبعی کر رہے تھے اور خوشی کس بات کی تھی...!! عنقریب شہادت نصیب ہو گی، اِمامِ عالی مقام، اِمامِ حُسَین رَضِیَ اللہُ عنہ پر جان قربان کرنا نصیب ہو گا اور ہم مالِکِ جنّت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کے کرم سے جنّت میں پہنچ جائیں گے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراَسْرار بندے جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خُدائی
دو نِیْم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالَم سے کرتی ہے بیگانہ دِل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی
شہادت ہے مَطْلُوب و مَقْصودِ مؤمن نہ مالِ غنیمت، نہ کِشْوَرْ کُشائی