Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair

مَنْ رَضِیَ بِاللہِ رَبًّا وَ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا یعنی جو اللہ پاک کے ربّ ہونے، اِسلام کے دین ہونے اور مُحَمَّد   صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم     کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا، اُس نے ایمان کی حلاوَت کو پالیا۔([1])

سُبْحٰنَ اللہ! پتا چلا؛ جو اللہ پاک کے رَبّ ہونے پر راضِی ہو جائے، اُس کا ایمان کامِل ہو جاتا ہے اور وہ اِیمان کی مٹھاس پا لیتا ہے۔ اللہ پاک کے رَبّ ہونے پر راضِی ہو جانے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ وہ ہمارا رَبّ ہے، اُس نے ہمارے حق میں جو چاہا فیصلہ فرمایا، ہم اسی پر ہنسی خوشی راضِی ہیں۔

وہ کوئی اور رَبّ ڈھونڈے

ایک حدیثِ قدسی میں ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: میں ہی اللہ ہوں، میرے سِوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پَس *جو میری (دی ہوئی) مصیبت پر صبر نہ کرے *میری نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے اور *میری تقدیر پر راضی نہ ہو، اسے چاہئے کہ میرے سِوا کوئی اَور رَبّ تلاش کر لے۔([2])

اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ! دیکھئے! کیسا جھنجھوڑنے والاکلام ہے، جو بندہ اللہ پاک کی تقدیر پر، اُس کے فیصلوں پر راضی نہیں رہتا، اسے گویا دُھتکارا جا رہا ہے، اُسے بتایا جا رہا ہے کہ وہ بندہ کہلانے کا حق دار ہی نہیں ہے۔ اَصْل میں بندہ تو وہی ہے جو رَبِّ کریم کے فیصلوں پر راضی رہتا ہے۔

کس کے دَرْ پر میں جاؤں گا مولیٰ                                                                گر   تُو   ناراض   ہو  گیا  یَاربّ!


 

 



[1]...ترمذی، كتاب الایمان، صفحہ:618، حدیث:2623۔

[2]...معجم کبیر ،جلد:9، صفحہ:316، حدیث:18254۔