Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair

ہم حق کے لیے جان دیں گے

اِمامِ عالی مقام امام حُسَین  رَضِیَ اللہُ عنہ  جب کربلا کی طرف تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں آپ کو گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی ذرا سِی اُونگھ آ گئی، آنکھ کھلی تو فرمایا: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن  ہم اللہ پاک کے ہیں، اسی کی طرف لوٹنا ہے اور سب تعریفیں اللہ رَبُّ العالمین ہی کےلیے ہیں۔

2، 3مرتبہ یُونہی ہوا، آپ کو اُونگھ آئی، جاگے تو یہی کلمات دُہرائے۔ یہ مُعَاملہ دیکھا تو آپ کے شہزادے حضرت علی اَکْبَر  رَضِیَ اللہُ عنہ  قریب حاضِر ہوئے، عرض کیا: بابا جان...! میری جان آپ پر فِدا ہو، کیا مُعَاملہ ہے؟ فرمایا: بیٹا ! مجھے اُونگھ آ گئی تھی، میں نے دیکھا: ایک شخص گھوڑے پر سُوار ہے، کہہ رہا ہے: لوگ سَفَر کر رہے ہیں اور موت ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس سے میں نے جان لیا کہ (وہ شہادت جس کی خوشخبری بچپن ہی سے سُنائی جا چکی ہے، اس) شہادت کا وقت آ پہنچا ہے۔ حضرت علی اَکبر  رَضِیَ اللہُ عنہ  نے عرض کیا: بابا جان! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: خُدا کی قسم! ہم حق کے رستے پر ہیں۔ عرض کیا: بابا جان...!! پِھر کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم حق کی راہ میں جان دینے پر راضِی ہیں۔([1])

اللہُ اکبر! کیسے نِرالے جذبات ہیں۔ یہ  گفتگو جو باپ بیٹے کے درمیان ہوئی، آپ ذرا غور فرمائیے! اسی قسم کی باتیں صدیوں پہلے بھی باپ بیٹے کے درمیان ہوئی تھیں، حضرت اِبْراہیم  علیہ السَّلام نے جب اپنے شہزادے حضرت اِسْماعیل  علیہ السَّلام سے کہا تھا: بیٹا! میں نے خواب دیکھا کہ تمہیں راہِ خُدا میں قربان کر رہا ہوں۔ عرض کیا: بابا جان...!! جو حکم ہے کر


 

 



[1]...تاریخِ طبری، ثم دخلت سنۃ احدی و ستین...الخ، جلد:3، صفحہ:309۔