Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair

جس کسی نے کربلا میں جان دِی                                                       ان سبھی اِیمان داروں کو سلام

رحمتیں ہوں ہر صحابی پر مُدام                                                                    اور خصوصاً چار یاروں کو سلام

جو حسینی قافلے میں تھے شریک                                                    کہتا       ہے        عطّارؔ        ساروں       کو       سلام([1])

تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھئے! یہ ہیں کربلا کے عظیم جاں نثار۔ کیسے نِرالے جذبات رکھتے تھے، کیسی نِرالی ایمانی سوچ تھی، یہ لوگ اللہ پاک کی رِضا پانے اور اِمامِ عالی مقام  رَضِیَ اللہُ عنہ  کے قدموں پر جان قربان کرنے کی خاطِر کتنے پُرجوش تھے، کس خوشی اور جذبۂ شکر کے ساتھ جانیں قربان کر رہے تھے۔

آہ! ایک ہم ہیں، اَفسوس! ہمارے ہاں تو کھاؤ، پیو اور جان بناؤ کا نعرۂ بےجا ہی  زندگی کا معیار رہ گیا ہے۔ وہ عظیم لوگ جذبۂ اِیمانی سے سَرْشَار تھے، اب زیادہ تَر مسلمان کمزورئ اِیمان کا شکار ہیں، اُن کے پیشِ نظر ہر دَم اللہ و رسول کی رِضا تھی، آج مسلمانوں کی اکثریت دُنیا کی محبّت میں غرق ہوتی جا رہی ہے، وہ اعلیٰ کردار کے مالِک تھے مگر ہم تو بس گفتار کے غازی (یعنی باتوں کے دلیر) رہ گئے ہیں۔

کتنے سارے نوجوان ہیں، اُن سے پوچھو: آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ *کوئی کہے گا: بڑا آدمی بننا *کوئی کہے گا: پیسا کمانا *کوئی کہے گا: گاڑی بنگلہ خریدنا۔ اللہ پاک کو راضِی کرنے کی جانِب تو تَوَجّہ ہی نہیں رہی۔اے کاش! ہماری زندگی کا مقصد بھی اللہ  پاک کو راضِی کرنا بن جائے۔


 

 



[1]...وسائلِ بخشش، صفحہ:605 تا 607 ملتقطاً۔