Book Name:Nojawanane Karbala Ka Zikre Khair

آج بھی ہمارے دِلوں اور دِماغوں پر چھایا ہوا ہے، ایسا کوئی دوسرا سانحہ نہیں ہے۔ اس سے اِشارہ مِلتا ہے کہ اُس واقعہ کو یاد رکھا نہیں گیا، رکھوایا گیا ہے۔ قُدْرت نے اس واقعہ کو کیوں دِلوں میں تازہ رکھا...؟ اس لیے کہ یہ صِرْف سانحہ نہیں...!! سبق ہے۔ گویا یہ ایک دَرْسِ زندگی ہے، جو ہر سال محرَّم شریف میں ہمیں یاد دِلایا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو! امامُ الانبیا  صلی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کی اَوْلادِ پاک نے زندگی کو کس رنگ میں گزارا ہے، اُس سے سبق سیکھو اور اُس کی روشنی میں اپنی زندگی اُسْتوار کر لو...!!  

آیتِ کریمہ کی مختصر وضاحت

ہم نے شروع میں ایک آیتِ کریمہ سُنی، یہ آیتِ کریمہ ہمیں اِمامِ عالی مقام اور دیگر شہیدانِ کربلا   رَضِیَ اللہُ عنہم کے مَقْصَدِ زندگی کا اِشارہ دیتی ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

وَ مِنَ النَّاسِ (پارہ:2،البقرۃ:207)

تَرجَمۂ کَنزالْعِرفَان:اور لوگوں میں سے۔

یہاں لفظِ مِنْْ کا معنیٰ ہے: کچھ۔ تھوڑے۔ یعنی آگے جس مرتبہ و مقام کا ذِکْر آنے لگا ہے، اُس کی تمنّا بہت لوگ کرتے ہیں لیکن عملی طَور پر اس پر پہنچنے والے بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں۔

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اَوْجِ ثُرَیّا پہ مُقِیْم

پہلے      ویسا      کوئی      پیدا      تو     کرے     قلبِ      سلیم([1])

وضاحت: یعنی اُونچے رُتبوں تک پہنچنے کے خواب تو سبھی دیکھتے ہیں مگر وہاں تک پہنچنے کے لیے جو قربانیاں دینی پڑتی ہیں، جو محنت لگتی ہے، وہ محنت کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔


 

 



[1]...کلیات اقبال، بانگ درا، صفحہ:233۔