عبادت کی حکمتیں

احکامِ شریعت کی حکمتیں

عبادت کی حکمتیں

*مولانا ابرار اختر القادری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء

اللہ کریم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ ارشاد فرمایا لیکن   اللہ کریم کا نائب و خلیفہ ہونے کا یہ مقام و شرف   صرف اُسی انسان کا حق ہے جو عبد یعنی اللہ کا بندہ بن کر رہے اور کبھی اپنی حُدود سے تجاوز نہ کرے۔ بندگی ہی وہ واحد شے ہے جو بندے کو اس کے مالکِ حقیقی کے ساتھ مَربوط رکھتی ہے اور اسے اپنے خالق کا تابع فرمان بنائے رکھتی ہے۔ تخلیقِ انسانی کا مقصد  اللہ کی عبادت ہے،  چنانچہ ارشاد فرمایا:

(وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶) )

ترجَمۂ کنز الایمان:اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔ ([1])

 معلوم ہوا کہ عبد یعنی بندہ بندگی و عبادت کے ذریعے ہی اپنے معبود سے مربوط رہ سکتا ہے، لہٰذا اسے چاہئے کہ اپنے رب کی عبادت بجا لائے کہ اسے یہی حکم دیا گیا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے:

زندگی آمد برائے بندگی

زندگی بے بندگی شرمندگی

یعنی زندگی ملی ہی بندگی کے لئے ہے کہ بغیر بندگی والی زندگی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں۔

عبادت کی حکمتیں

یہاں سُوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت بجا لانے کا حکم کیوں دیا؟ کیا وہ ہماری عبادت کا محتاج ہے؟ تو اس حوالے سے یاد رکھئے کہ بندوں کو عبادت کا جو پابند بنایا گیا ہے اس میں اللہ پاک کی کئی حکمتیں کارفرما ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

عبادت کا فائدہ بندے کو ہے:

اللہ پاک بے نیاز ہے اور اس کو ہماری عبادت کی قطعاً کوئی ضَرورت نہیں، بلکہ عبادت کا حقیقی فائدہ بندے کو ہی ہوتا ہے، جیساکہ فرمانِ باری ہے:

(یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۲۱) )

ترجَمۂ کنز الایمان:اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اَگلوں کو پیدا کیا یہ اُمید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔([2])

تفسیر خزائن العرفان میں

(لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ)

کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے: اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو۔([3])

اللہ پاک کے حق کی اَدائیگی:

بندوں پر اللہ پاک کا یہ حق ضَرور ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی  رحمۃُ اللہِ علیہ حجۃُ اللہِ البالغہ میں فرماتے ہیں: آدمی پورے یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتا ہو کہ بندوں پر اللہ پاک کا یہ حق ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اللہ پاک کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنے بندوں سے عبادت بجا لانے کا اس طرح مطالبہ فرمائے جس طرح دوسرے اہلِ حُقوق اپنے حق کا تقاضا کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دن حُضور نبیِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت معاذ بن جبل  رضی اللہُ عنہ  سے دریافت فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اس کے ذمّہ کون ساحق ہے؟ عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ تو ارشاد فرمایا: اللہ پاک کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، جبکہ اللہ پاک پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جس نے شرک نہیں کیا وہ اس کو عذاب سے محفوظ رکھے۔([4])

شکر اَدا کرنے کے لئے:

 انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ احسان شناس ہے اور جب اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا منعم حقیقی اللہ پاک ہے تو اب اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ پاک کی بے شُمار نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے اس کی عبادت بجا لائے کہ اس کی عبادت کرنا بھی گویا کہ اس کے انعامات کا شکر ہی ہے۔ جیساکہ قراٰنِ کریم میں ہے:

(اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-)

ترجَمۂ کنز الایمان: اے داود والو شکر کرو۔([5])

اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ مُنعِم یعنی اللہ کریم کی نعمت کا اعتِراف کیا جائے اور اس نعمت کو اللہ کریم کی اِطاعت میں استعمال کیا جائے۔ یعنی ایسا عمل کیا جائے جو شکر ہو گویا نَماز، روزے اور تمام عبادات فی نفسہا شکر ہیں کیونکہ یہ شکر کے قائم مقام ہیں۔([6]) اور عبادت کے شکر کا بہترین طریقہ ہونے کے متعلّق یہی بات کافی ہے کہ حُضور نبیِ كريم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نَماز کی کثرت فرماتے یہاں تک کہ پائے مبارَک سُوج جاتے،صحابۂ کرام عرض کرتے: حُضور اس قَدَر کیوں تکلیف گوارا فرماتے ہیں ؟اللہ پاک نے حُضور کو ہر طر ح کی مُعافی عطا فرمائی ہے۔ تو ارشاد فرماتے: اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا تو کیا میں کامل شکر گزار بندہ نہ ہُوں! ([7])

اللہ کا قُرب پانے کے لئے:

 عبادت کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ بندہ عبادت سے اللہ پاک کا قرب پا کر اس کے قریب ہو جاتا ہے، جیسا کہ ایک حدیثِ قدسی میں ہے: میرے کسی بندے نے میرے فرض کردہ اَحکام کی بجاآوری سے زیادہ محبوب شے سے میرا قُرب حاصل نہیں کیا اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبَّت کرنے لگتا ہوں۔([8]) قراٰنِ کریم میں بھی عبادت کے بدلے اللہ پاک کی رضا پانے کا مُژدہ مذکور ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

(وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰))

ترجَمۂ کنز الایمان:اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دُعا کرو میں قبول کروں گا بےشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے (تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنّم میں جائیں گے ذلیل ہوکر۔([9])

اس آیت کے تحت تفسیر خزائنُ العرفان میں ہے: آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دُعا سے مُراد عبادت ہے اور قرآنِ کریم میں دُعا بمعنٰی عبادت بہت جگہ وارِد ہے۔ حدیث شریف میں ہے: اَلدُّعَآ ءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ۔ ([10])اس تقدیر پر آیت کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرومیں تمہیں ثواب دوں گا۔([11])

امتِحان اور بندگی کے ثبوت کے لئے:

عبادت میں اللہ کے حکم کی تعمیل اور بندگی کا عملی اِظہار ہی نہیں، بلکہ ایمان کا امتِحان بھی ہے کہ كیا بندہ سستی، کاہلی یا دنیاوی مصروفیات کے مقابلے میں اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے عبادت کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:

(اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ- )

ترجَمۂ کنزُالایمان:وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو تم میں کس کا کام زیادہ اچّھا ہے۔([12])

یعنی کون زیادہ مُطیع و مُخلص ہے۔

روحانی سُکون اور قلبی اطمینان پانے کے لئے:

عبادت دل کو سُکون اور روح کو اطمینان بخشتی ہے۔جیسا کہ قراٰن میں فرمایا گیا:

(اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ(۲۸))

ترجَمۂ کنز الایمان: سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔([13])

نیز ایک مقام پر حُضور کو کفّار کی ایذا رسانیوں پر ملال سے چھٹکارے کا یہ طریقہ بتایا گیا:

(وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ(۹۷) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ(۹۸) )

ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے تم دل تنگ ہوتے ہو تو اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں میں ہو۔([14])

اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائنُ العرفان میں ہے: خُدا پرستوں کے لئے تسبیح و عبادت میں مشغول ہونا غم کا بہترین عِلاج ہے۔ ([15])

الغرض عبادت روحانی و جسمانی اور اخلاقی فوائد کا ایک ایسا مکمّل نِظام ہے جو بندے اور اس کے معبود کے درمیان گہرا تعلّق پیدا کرتا اور دنیا و آخِرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ خواتین دعوتِ اسلامی (ویب ایڈیشن))



([1])پ27، الذریت: 56

([2])پ1، البقرہ: 21

([3])تفسیر خزائن العرفان، ص 10

([4])بخاری، 2/ 269، حدیث: 2856 ،،حجۃ اللہ البالغہ، ص 67

([5])پ22، سبا: 13

([6])تفسیر قرطبی، 7/ 204

([7])بخاری، 1/ 384، حدیث: 1130

([8])بخاری، 4/ 248، حدیث: 6502

([9])پ24، المؤمن: 60

([10])دعا عبادت ہے۔(ترمذی، 4/ 452، حدیث: 2980)

([11])تفسیر خزائن العرفان، ص 874

([12])پ29، الملک: 2

([13])پ13، الرعد: 28

([14])پ:14، الحجر: 97، 98

([15])تفسیر خزائن العرفان، ص480


Share