
اسلاف کے قلم سے
اولاد کی تربیَت
حضرت عُمر بن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
امیرالمؤمنین حضرت عُمر بن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ بہت عابد و زاہد، بُردبَار، عاجِزی واِنکِساری کے پیکر، خوفِ خداسے لَبْریز، عَدْل و انصاف قائم کرنے، بھلائی اور نیکیوں کو محبوب رکھنے، نیکی کا حکم دینے اوربُرائی سے مَنْع کرنے والے تھے۔ آپ نے صرف 29ماہ کےعرصے میں دنیا کےایک بڑے حصے میں خوشحالی کا ایسا اِسلامی اِنقلاب برپا کیا جس کی مثال صَدْیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ملتی، آپ نے عَہْدِ خُلفائے راشِدین کی یاد تازہ کردی۔ آپ کو عُمرِثانی بھی کہا جاتا ہے۔([1])
حضرت عمر بن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیَت کا نہایت عمدہ انتِظام کیا، چنانچہ جلیلُ القدر محدِّث حضرت صالح بن کَیسان رحمۃُ اللہِ علیہ جو آپ کے بھی استاذِ محترم تھے، ان کو اپنی اولاد کا اَتالیق (یعنی نگران استاذ)مقرّر کیا۔([2]) علاوہ اَزیں آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے آزاد کردہ غُلام سَہْل بھی اولاد کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ حضرت عمر بن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ ان کو بہترین تعلیم و تربیَت دینے پر خود بھی متوجّہ کرتے رہتے تھے، اولاد کی تربیت کے حوالے سے آپ کے دو اہم مکتوب یہاں بطور ”اسلاف کے قلم سے“ شامل کئے جاتے ہیں:
فکرِ تربیَتِ اولاد پر مشتمل ایک مکتوب
میں نے بہت سوچ سمجھ کر تمہیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیَت کے لئے منتخب کیا ہے، ان کو تَرکِ صحبت کی طرف توجُّہ دلاؤ کہ وہ غفلت پیدا کرتی ہے،انہیں کم ہنسنے دو کہ زیادہ ہنسنا دل کو مُردہ کردیتا ہے، تمہاری کوشِشوں کے نتیجے میں ایک اَہم بات جو وہ سیکھیں وہ یہ ہے کہ انہیں گانے باجے کی طرف سے نفرت ہو کیونکہ گانا سننا دل میں اسی طرح نِفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سے گھاس اُگتی ہے، میرے بیٹوں میں سے ہر ایک کے جَدوَل میں یہ بھی ہو کہ وہ قراٰنِ مجیدکھولے اور نہایت اِحتِیاط کے ساتھ اس کی قِراءَ ت کرے، جب اس سے فارِغ ہوجائے تو ہاتھ میں تیر و کمان لے کر بَرَہْنہ پا (یعنی ننگے پاؤں) نکل جائے اور سات تیر چلاکر نشانہ بازی کی مَشق کرے، پھر قَیلُولہ(یعنی دوپہر کا آرام) کرنے کے لئے واپس آئے کیونکہ حضرت اِبنِ مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ”قَیلُولہ کرو اس لئے کہ شیطان قَیلُولہ نہیں کرتا۔“([3])
بیٹے کے نام نصیحت آموز خط
حضرت عمر بن عبدُالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ براہِ راست اپنی اولاد کو بھی تربیَت و نصیحت کے مَدَنی پھولوں سے نوازتے رہتے تھے، چنانچہ اپنے بیٹے کے نام ایک خط میں لکھا: تم اپنے آپ اور اپنے والد پر اللہ تعالیٰ کے اِحسانات کو یاد کرو، پھر اپنے باپ کی ان کاموں میں مددکروجن پراسے قُدرت حاصل ہے اوراس معاملہ میں بھی مددکروجس کے بارے میں تم یہ سمجھتے ہو کہ میراباپ ان کواَنجام دینے سے عاجِزہے۔تم اپنی جان، صحّت اورجوانی کی پوری رعایت رکھو، اگرتم سے ہوسکے تو اپنی زُبان تَحمید وتسبیح کی صورت میں اللہ پاک کے ذِکر سے تَر رکھو،اس لئے کہ تمہاری اچّھی باتوں میں سے سب سے اچّھی بات اللہ پاک کی حمد اور اس کا ذِکرہے۔ جوشخص جنّت کی رَغبَت رکھتا ہو اور جہنّم سے بھاگتا ہو تو ایسی حالت والے آدمی کی توبہ قبول ہوتی ہے اس کے گُناہ مُعاف کئے جاتے ہیں۔ مدّتِ مقرّرہ (یعنی موت) کے آنے سے پہلے اور عمل کے خَتم ہونے سے پہلے اور جنّ و اِنس کو ان کے اعمال کا بدلہ دینے سے پہلے، اللہ تعالیٰ انہیں اُن کے اعمال کابدلہ دے گا ایسی جگہ جہاں فِدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور جہاں معذرت نَفع مند نہیں ہوگی اور جہاں پوشیدہ اُمور ظاہر ہوجائیں گے، لوگ اپنے اعمال کابدلہ لے کرلَوٹیں گے اور متفرّق ہوکر اپنے اپنے مقامات کی طرف جائیں گے، پس اس آدمی کے لئے خوش خبری ہے جس نے اللہ پاک کی اِطاعت کی اور اس آدمی کے لئے ہلاکت ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، پس اگر اللہ تعالیٰ تمہیں مالداری عطاکرکے آزمائے تواپنی مالداری میں مِیانہ رَوِی اِختِیارکرنا،اور اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے آپ کو جھکا لو، اور اپنے مال میں اللہ تعالیٰ کے حُقوق کو ادا کرو، اور مالداری کے وَقت وہ بات کہو جو حضرت سلیمان علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے کہی تھی، یعنی
)هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-(
ترجَمۂ کنزالایمان: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری۔([4])
اور تم فخروخودپسندی سے اِجتِناب کرنااور اسی طرح اپنے رب کے دئیے ہوئے مال کے بارے میں یہ گمان نہ کرو کہ یہ تمہاری کسی شرافت کی بِناپرتمہیں ملا ہے یا کسی ایسی فضیلت کی بنیاد پر ملا ہے جو اُن لوگوں میں نہیں ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ مال نہیں دیا ہے، پھر اگرتم نے اللہ پاک کے شکر میں کوتاہی کی تو فَقر و فاقہ کا مزہ چکھو گے اور ان لوگوں میں سے ہوگے جنہوں نے مالداری کی بنیادپرسَرکشی کی اور ان کواعمال کا بدلہ دنیا میں دے دیا گیا، بےشک میں تمہیں یہ نصیحت کررہا ہوں حالانکہ میں اپنے نَفس پر بہت ظُلم کرنے والا ہوں، بہت سے اُمور میں غَلَطی کرنے والا ہوں اور اگر آدمی اپنے اُمور کے ٹھیک ہونے تک اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کامل ہونے تک اپنے بھائی کو نصیحت نہ کرتا تو لوگ اَمْرٌبِالمعروف اور نہیٌ عَنِ المنکر کو چھوڑ دیتے اور حرام کاموں کو حلال سمجھنے لگتے، اور نصیحت کرنے والے اور زمین میں اللہ کے لئے خیرخواہی کرنے والے کم ہوجاتے، پس اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں جو زمینوں اور آسمانوں کا پروردگار ہے، اور اسی کے لئے زمین و آسمان میں کِبریائی ثابت ہے اور وہی غالب اور حکمت والا ہے۔([5])
Comments