مشورہ دینے کا اہل کون؟

امیرِ اہلِ سنّت کا تحریری پیغام

مشورہ دینے کا اہل کون؟

از:شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء

 صحابی اِبنِ صحابی، کاتبِ وحی، حضرتِ امیرِ مُعاویہ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں:آدمی اس وقت تک رائے (یعنی مشورہ) دینے کے قابل نہیں ہوتا جب تک اُس کا حِلْم (یعنی نرمی،بُردباری،قوتِ برداشت) اس کی جَہالت پر اور اس کا صبر اُس کی خواہش پر غالب نہ آجائے اور ا س مَقام تک انسان علم کی قوت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔ ([1])

اے عاشقانِ رسول! اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئےکہ اگر کسی نے کوئی مشورہ دیا اور اس کامشورہ قبول نہ کیا گیا تو اسے غصہ آجائے کہ میرے مشورے پر عمل کیوں نہیں کیا؟ تو ایسا شخص مشورہ دینے کا اہل نہیں ہے کیونکہ مشورہ دینے والے کی جو دو صفات بیان کی گئی ہیں وہ اس شخص میں موجود نہیں ہیں، پہلی یہ کہ اس کے جہل پر اس کا حِلْم غالب ہویعنی مشورہ قبول نہ ہونے پر غصہ نہ کرے، بِپَھر نہ جائےبلکہ نرمی کرے اور برداشت سے  کام لے۔ اوردوسری صفت یہ کہ اس کی خواہش پر اس کا صبر غالب ہویعنی خواہش تو یہ تھی کہ اس کامشورہ قبول کرلیاجاتا لیکن قبول نہ ہونے پر جو صدمہ پہنچااس صدمے پر یہ شخص صبرکرلے۔

مشورہ یا حکم؟:

معاشرے میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی بات کو کہتے تو مشورہ ہیں لیکن حقیقت میں حکم دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ ہر ایک پر آرڈر چلانے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ کیا ہمیں شریعت نے ہرایک پر آرڈر چلانے کا حق دیا ہے؟ لہٰذا مشورہ اور حکم میں فرق کیجئے۔حکم ہر ایک نہیں کر سکتا، البتہ مشورہ چھوٹا بندہ بھی دے سکتا ہے۔ اگر کبھی کسی کا مشورہ قبول نہیں ہوا تو مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ وہ برداشت سے کام لے اور یہ سوچ کر صبر کرے کہ میں نے تو مشورہ ہی دیا تھا،آرڈر کہاں جاری کیا تھا! ممکن ہے کہ میرے مشورے کے علاوہ دوسرے کے مشورے میں بہتری سمجھی گئی ہو،لہٰذا اپنی رائے اور مشورے کو ہرحال میں بہتر سمجھ بیٹھنا عقل مندی نہیں۔

ایک دلچسپ مشورہ:

مجھے دعوتِ اسلامی کے شروع کے دور میں اس کا بہت تجربہ ہوا اور اب بھی ذمہ داروں کو ہوتا ہوگا، لوگ مجھے راستے میں روک روک کر مشورے دیتے تھے، ایسے ایسے مشیر ملتے تھےکہ جو صرف مشورہ دے کر دعوتِ اسلامی کے کام میں اپنا اپنا حصہ ملاتے تھے۔

ککری گراؤنڈ (کھارادر،کراچی) میں جن دنوں دعوتِ اسلامی کا اجتماع ہوتا تھا،ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ اجتماع گاہ کے باہر دروازے پر کوئی بکس وغیرہ لگوالیں، اور وہاں کچھ لوگوں کو کھڑا کر دیں جو کہتے رہیں کہ جو بھی اجتماع کے لئے ککری گراؤنڈ میں آنا چاہے وہ ایک ایک روپے کا نوٹ ([2]) دعوتِ اسلامی کو چندہ دیتا جائے اور گراؤنڈ میں داخل ہوتا جائے، اس سے آپ کو چندہ بھی مل جائے گا اور آنے والوں کی تعداد بھی پتا چل جائےگی!۔ ہر ذی شعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ مشورہ قابلِ قبول نہ تھا۔

اگر میں ہرایک کامشورہ قبول کرلیتا۔۔۔

کئی لوگ مجھے لمبے لمبے لیٹر لکھ کر مشورے دیتے تھے اور کئی تو حکم نامے جاری کرتے تھے کہ یوں ہونا چاہئے یا یوں کرلو! پھر بعض صاحبان بعد میں کسی کسی سے میرے بارے میں یہ بھی کہتے تھے کہ یہ کسی کا مشورہ نہیں مانتا، بس اپنی چلاتا ہے۔ یہ بھی واضح کردوں کہ کیا عوام کیا خواص ہر طرح کے لوگ مجھے مشورے دیتے تھے، البتہ بعض حضرات کے مشورے سمجھ میں آجاتے اور میں قبول بھی کرلیتا۔ بِن مانگے مشورے مجھے شاید ہزاروں ملے ہوں اگر میں مروَّۃً یا بے سوچے سمجھے ہر کسی کے مشورے پر عمل کرتا رہتا تو آج دعوتِ اسلامی کا جتنا کام دنیا بھر میں اللہ کی رحمت سے پھیلا ہوا ہے شاید اتنا نہ پھیلتا اور نہ مدنی چینل کی مدنی بہاریں دنیا بھر میں ہوتیں۔

شروع میں بیان کردہ قول میں یہ بھی بتایا گیا کہ مشورہ دینے کی اہلیت کےلئے علم بھی ضروری ہے،کسی کام کے بارے میں علم نہ ہوتے ہوئے بھی مشورہ دینا مُشار(یعنی جسے مشورہ دیا گیا) اور مُشیر(یعنی مشورہ دینے والے) دونوں کی دنیا و آخرت کے لئے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے،ہمارے بزرگان ِ دین اس معاملے میں بڑے ہی محتاط ہوا کرتے تھے،چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہ علیہ  سے ایک طویل سوال ہوا جس میں یہ بھی الفاظ تھے ”ہم کو کیا کارروائی کرنا چاہئے اور اس صورت میں شرع شریف کا کیا حکم ہے۔“ امامِ اہلِ سنّت  رحمۃ اللہ علیہ  نے جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بحمد اﷲتعالیٰ میں حکمِ شرعی جانتا ہوں اور وہی بتاسکتا ہوں قانون سے نہ مجھے واقفیت نہ اس کا مشورہ دے سکتا ہوں۔ ([3])

اللہ کریم ہمیں درست مشورے دینے اور ملے ہوئے درست مشوروں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])احیاء العلوم، 3/220

([2])اب پاکستانی کرنسی میں ایک روپے کے نوٹ کا رواج ختم ہوچکا ہے

([3]) فتاویٰ رضویہ،16/162،161


Share

Articles

Comments


Security Code