
بیٹیوں کی تربیَت
گھریلو ہنر بھی سکھائیں
*ام میلاد عطاریہ
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
ہنرمندی انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہے، ہر شخص اپنے اندر کچھ صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتا ہے جن کو پہچان کر وہ ایک بڑے ہنر میں تبدیل کر لیتا ہے۔ جبکہ تعلیم انسان کو شُعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے۔ موجودہ دَور میں تعلیم اور ہُنر کو کسی بھی قوم کی ترقّی اور خوشحالی میں جو بنیادی اہمیّت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے مستقبل پر نَظَر رکھتے ہوئے اپنی بیٹیوں کے لئے ایسے شعبے کا انتخاب کریں جو ان کی ذہانت، قابلیت اور ذَوق و شوق سے ہم آہنگ ہو تو یقینی بات ہے کہ وہ اس پیشے میں نہ صرف ترقّی کریں گی بلکہ اس میں زیادہ معاشی فوائد بھی حاصل کر پائیں گی۔کوئی مہارت نہ ہو تو تعلیمی ڈگری بغیر پانی کے گلاس کی طرح خالی ہوگی۔ اچّھی زندگی گزارنے کے لئے مہارت اور ڈگری دونوں چیزیں اَہَم ہیں۔
اللہ پاک نے مرد و عورت کی تخلیق کرکے دونوں کے لئے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر خاص کاموں کا تعین فرما دیا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں کے اپنے اپنے کام مقرّر ہیں اور عورت گھر کی ملکہ ہے اور وہ گھر میں رہ کر اُمورِ خانہ داری کو سنبھالے اور مرد کے لئے کسبِ معاش کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اہلِ خانہ کے لئے رزق کمائے۔ بڑا پُرسُکون ہوتا ہے وہ لمحہ، جب مَردوں میں سے کوئی اپنی بہن، بیٹی، بیوی یا ماں کی ضَروریات کا خیال رکھتا ہے انہیں ان کی پسند کی چیزیں لا کر دیتا ہے اور مزید یہ جملے بھی بولے کہ ’’کسی اور چیز کی ضَرورت ہو تو بتانا میں پورا کروں گا، آپ کو فکرمند ہونے کی ضَرورت نہیں۔‘‘ یہ اور اس طرح کے جملے بڑے فرحت بخش ہوتے ہیں اور تحفّظ کا احساس بھی دلاتے ہیں۔ لیکن پریشانی اس وقت آتی ہے جب خدانخواستہ باپ، بھائی، شوہر یا بیٹا کسی بڑی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں یا دنیا سے رُخصت ہوجائیں اور کسبِ معاش کا کوئی ذریعہ نہ ہو، اب عورت گزارا کیسے کرے؟ اس سے پہلے کہ عورت ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو اسے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرنا سیکھنا چاہئے۔ اس سے وہ خود کفیل ہوگی اور شرمندگی سے بچی رہے گی۔ اگر صنفِ نازک کے ہاتھ میں کوئی ہنر کوئی تجارت یا کسبِ معاش کا کوئی سلیقہ اور ذریعہ نہ ہو تو وہی عورت اس بات پر مجبور ہوجاتی ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے اپنے بچّوں کی پرورش کی خاطر دستِ سوال دراز کرے اور بیچارگی کی زَد میں آجائے، اور ذلّت آمیز زندگی گُزارے۔ عورت کا اپنے دائرے کے اندر رہ کر کسبِ معاش میں حصّہ لینا کوئی معیوب عمل نہیں ہے۔ موجودہ دَور میں تو یہ کام اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ بہت سارے دلچسپ ہنر ایسے ہیں جو بیٹیوں کو سکھائے جاسکتے ہیں جیساکہ کوکنگ/بیکنگ کورس کرکے مہارت حاصل کی جا سکتی ہے، گھر کے ڈیکوریشن پیس بنانا ، جیولری بنانا، میزپوش، کشن، مکرامے، پراندے اور دسترخوان بنانا، دوپٹوں پر گوٹے سے پھول اور ستارے ٹانکنا، مہندی، دستکاری، کشیدہ کاری، کڑھائی، سلائی، کروشیہ، پینٹنگ اور دیگر بہت سارے ایسے فنون ہیں جو بیٹیوں کو سکھائے جا سکتے ہیں۔ یہ مارکیٹ میں ہینڈی کرافٹ کے زمرے میں آتے ہیں یہ وہ کام ہیں جو خواتین اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کر کرسکتی ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ موجودہ دَور کے تقاضے کے مُطابق شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے دنیاوی تعلیم بھی دیجئے اور اس کے ساتھ گھریلو ہُنر بھی ضَرور سکھائیں، اگر بیٹی کی دلچسپی کسی گھریلو ہنر میں نہیں بڑھتی مثلاً ماؤں کا زیادہ تر رجحان سلائی اور کڑھائی سیکھنے کی طرف ہوتا ہے اور بیٹی کی دلچسپی ان میں نہیں ہوتی مگر زبردستی اسے سلائی کڑھائی سیکھنے بھیجا جاتا ہے جو کہ وہ بددلی کے ساتھ کرتی ہے یا تو سیکھ نہیں پاتی یا سیکھتی بھی ہے تو ایسا کہ برائے نام !! ایسےمیں وقت و پیسہ دونوں کا ضیاع ہوتا ہے اور ضَرورت پڑنے پر اسے کوئی ہنر نہیں آتا اور کئی عورتیں تو ایسی ہوتی ہیں جن کے پاس نہ ہی دینی و دنیاوی تعلیم ہوتی ہے نہ ہی کوئی ہنر مگر مجبوری آن پڑنے پر اُنہیں فیکٹریوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے یا گھروں میں صَفائی ستھرائی کا کام کرنا پڑتا ہے اور پھر اکثر جو اخلاقی و معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں وہ شاید ہی کسی سے ڈَھکی چُھپی ہوں۔ ایسے میں والدہ تحمّل کے ساتھ بیٹی سے جاننے کی کوشش کرے کہ بیٹی کی دلچسپی کس طرف ہے؟ آیا اسے مہندی لگانے کی جانب رغبت ہے، یا پینٹنگ کرنے کی شوقین ہے،یا جیولری میکنگ، گھریلو ڈیکوریشن، یا کوکنگ وغیرہ میں دلچسپی رکھتی ہے تو بیٹی کو اس کے شوق کے مُطابق کام سکھا کر اس کام میں ماہر بنائیں تاکہ وہ اس کام میں شوق کے ساتھ ساتھ مہارت بھی حاصل کرلے۔ یا اگر بیٹی گھریلو ہنر میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ ٹیکنالوجی سیکھنا چاہتی ہے جیسا کہ جدید دَور ہے اس میں کئی لوگوں کا رجحان ڈیجیٹل اسکلز سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے میں بڑھ رہا ہے، آئی ٹی کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے، گرافکس ڈیزائننگ، ای کامرس، سافٹ وئیرانجینئرنگ، مختلف لینگویجز وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو جدید دَور کے ساتھ نئے انداز سے آتی جا رہی ہیں اور نئی نسل کا رُجحان اپنی طرف کھینچتی جا رہی ہیں تو علمائے اہلِ سنّت سے اس پر راہنمائی حاصل کرکے پردے کی رعایت کو پیشِ نظر رکھ کر شرعی حُدود میں رہتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو ضُرور سکھائیں۔ تاکہ وقت پڑنے پر اپنا ہُنر آزما کراس کے ذریعے بیٹی مشکل وقت میں مالی طور پر مضبوط بن سکے اور اسے کسی بیساکھی کی ضَرورت نہ پڑے۔ ہنر مند گھریلو خواتین ملک کی معاشی طاقت ہیں۔ خواتین کے لئے ہنر ہتھیار ہے۔ وہ اپنا بوجھ بغیر کسی پر ڈالے اپنے چراغ روشن کرکے اپنے گھروں کے ساتھ ساتھ بہت سے گھروں کے اندھیرے دُور کرنے میں سرگرم ہوسکتی ہے۔ پھر چاہے آرٹ اینڈ کرافٹ ہو، کوکنگ، بیکنگ، سلائی کڑھائی کی کلاسز ہوں یا پھر کسی زُبان و علم کے سیکھنے سکھانے کا عمل، وہ ٹیکنالوجی کا مثبت استِعمال کرتے ہوئے نہ صرف تعلیم و ہنر سے آشنا ہوگی بلکہ اور بھی بہت سی خواتین کو استِفادہ کرنے کا موقع فراہم کرےگی۔ اپنی بیٹیوں کو لاڈ پیار میں بےہنر بھی نہ چھوڑا جائے اور فرمائشوں کو پورا کرتے ہوئے حرام کام بھی نہ سکھائے جائیں جیسا کہ موسیقی، بےپردگی والے کام وغیرہ، وہ کام کرے جو شریعت سے نہ ٹکراتا ہو، دینی و دنیاوی تعلیم دیں، گھریلو کام کاج سکھائیں اور ہنر مند بھی بنائیں۔
دین و دنیا کی بہترین راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ہر ہفتے بعد نَمازِ عشا مدنی مذاکرہ دیکھنا نہ بھولئے اس کے فوائد آپ جاگتی آنکھوں سے مُلاحظہ فرمائیں گی۔ اِن شآءَ اللہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن
Comments