انبیائے کرام کے واقعات
حضرت سیّدُنا دانیال علیہ السّلام
( قسط : 02 )
*مولانا ابوعبیدعطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2023ء
بادشاہ متأثر ہوگیا : بادشاہ نے آپ علیہ السّلام کو بُلوالیا ، دربار کا قانون تھا کہ بادشاہ کے پاس جب بھی کوئی آتا تو اسے سجدہ کرتا لیکن حضرت دانیال وہاں جاکر کھڑے ہوگئے اور سجدہ نہ کیا ، یہ دیکھ کر بادشاہ نے باقی سب لوگوں کو دربار سے باہر جانے کا کہا ، پھر آپ سے پوچھا : آپ نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے حکمت سے کام لیتے ہوئے فرمایا : مجھے میرے رب نے تعبیر کا علم دیا ہے اس شرط پر کہ میں کسی اور کو سجدہ نہ کروں ، مجھے ڈر ہے کہ تجھے سجدہ کرنے کی وجہ سے کہیں وہ مجھ سے یہ علم واپس نہ لے لے پھر میں بے پڑھا ہوجاؤں گا اور تو مجھ سے کوئی فائدہ نہ اُٹھاسکے گا اور مجھے قتل کردےگا۔ بادشاہ بولا : میرے دل میں آپ سے زیادہ قابلِ ستائش شخص کوئی نہیں کیونکہ آپ نے اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا ہے ، میرے نزدیک حیرت انگیز لوگ وہ ہیں جو اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کرتے ہیں ، کیا آپ کے پاس میرے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر ہے ؟ آپ نےفرمایا : ہاں ! مجھے وہ خواب بھی معلوم ہے اور اس کی تعبیر بھی پتا ہے۔ آپ نے پہلے بادشاہ کو اس کا خواب سنایا پھر اس کی تعبیر بتائی جسے سُن کر بادشاہ آپ سے بہت زیادہ متأثر ہوا۔)[1](
بادشاہ نے 3 تجاویز سامنے رکھیں : پھر بادشاہ نے آپ علیہ السّلام کوتین باتوں میں سے ایک کو قبول کرنے کی پیشکش کی ( 1 ) آپ اپنے شہر واپس چلے جائیں اور میں اس ویران شہر کو دوبارہ تعمیر کردوں گا ( 2 ) امن کا پروانہ لکھ دیتا ہوں تاکہ آپ میرے ملک میں جہاں چاہیں امن سے رہیں ( 3 ) یا پھر میرے ساتھ ساتھ رہیں۔ آپ نے فرمایا : پہلی بات کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے میری قوم اور ان کی سَر زمین کےلئے تباہی و بربادی لکھ دی ہے جب تک اللہ نہ چاہے تم بھی اس زمین کو آباد نہیں کرسکتے جب اس کا حکم آجائے گا تو یہ آزمائش ختم ہوجائے گی۔ دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ میرے لئے مناسب نہیں ہے کہ میں اللہ پاک کی امان و حفاظت میں رہتے ہوئے کسی اور کی حفاظت میں آؤں ، ہاں ! تیسری بات فِی الوقت زیادہ آسان ہے جب تک کہ حکمِ الٰہی نہیں آجاتا۔)[2](
بادشاہ نے آپ کو اپنا قریبی ساتھی بنالیا : پھر بادشاہ نے اپنے بیٹے ، اہلِ علم درباریوں اور مشیروں کو بلوایا اور اپنا حکم سنایا : یہ بڑے سمجھدار آدمی ہیں ان کی وجہ سے میری پریشانی دور ہوگئی ان کا احترام کرو ان سے اچھی باتیں سیکھو اور اگر تمہارے پاس ہم دونوں کی طرف سے الگ الگ پیغام آئے تو ان کی ضرورت کو میری ضرورت پر ترجیح دینا۔ اس طرح حضرت دانیال علیہ السّلام کو اُمورِ سلطنت میں بہت اونچا مقام حاصل ہوگیا یہ دیکھ کر بَابِل کے معززین آپ سے حَسَد کرنے لگے ( اور حِیلے بہانے کرکے آپ کے مقام کو بادشاہ کی نگاہ میں کم کرنے لگے ) ۔)[3](
آزمائش کا دور جاری رہا : بعض روایات کے مطابق ایک مرتبہ اہلِ بابل کا تہوار آیا تو سب باہر نکلے اور اپنے جھوٹے معبود کو سجدہ کیا اور حضرت دانیال اور ان کے ساتھیوں کو بھی سجدہ کرنےکا کہا لیکن حضرت دانیال اور ان کے ساتھیوں نے انکار کردیا ، یہ دیکھ کر قوم نے آگ بھڑکائی اور اس میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کو ڈال دیا ، ان ایمان والوں نے رات اسی آگ میں گزاری ، صبح بُخْت نَصر نے اپنے محل کے اوپر سے دیکھا کہ آگ میں پانچ لوگ ہیں ، پانچویں بارِیش فرد کو دیکھ کر بادشاہ پر ہیبت طاری ہوگئی ، اس نے قوم سے پوچھا : آگ میں کتنے افراد داخل کئے تھے ، قوم نے کہا : چار ! پانچویں کا ہمیں معلوم نہیں ، پھر بادشاہ نے حضرت دانیال کو بُلواکر پوچھا : پانچویں کون ہیں ؟ آپ نے جواب دیا : انہیں اللہ نے بھیجا ہے تاکہ یہ آگ کو ایسا بَرف کردیں کہ اس برف کی ٹھنڈک نقصان نہ دے۔)[4](
شیر والے گڑھے میں : بعض روایات میں یوں ہے کہ وہاں کے مَجوسی حسد کی آگ میں جلتے بھنتے ہوئے آپ اور آپ کے ساتھیوں کی شکایت لے کر بادشاہ کے پاس پہنچے کہ یہ لوگ نہ تمہارے مَعبُود کی عبادت کرتےہیں نہ تمہارے یہاں کا ذَبِیحَہ کھاتے ہیں ، بادشاہ نے ایک گڑھا کُھدوا کر اس میں ان 6 مؤمنوں کو ڈال دیا پھر ایک بھوکا شیر بھی اندر ڈال دیا تاکہ شیر ان مؤمنوں کو کھا لے ، شام کو جب یہ کافر واپس لوٹے تو دیکھا کہ شیر ان مؤمنوں کے آگے کلائیاں بچھائے بیٹھا ہے اور کسی کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچایا تھا۔)[5](
کنویں میں شیر کے ساتھ : اس طرح یہ حضرات بادشاہ کی نگاہ میں مزید معزز ہوگئے تھے مَجوسیوں نے بادشاہ کو دوبارہ شکایت کی تو بادشاہ نے ان حضرات کو ایک کنویں میں بھوکے شیر کے سامنے ڈال دیا۔)[6](
کنویں میں عبادتِ الٰہی : ایک روایت میں ہے کہ دو خُونخوار شیروں کو آپ علیہ السّلام کے ساتھ کنویں میں ڈال کر اوپر سے کنواں ڈھک دیا تھا۔ پانچ دن تک آپ علیہ السّلام کو کنویں میں شیروں کے ساتھ قید میں رکھا گیا جب پانچ دن کے بعد کھولا تو دیکھا کہ حضرت سیّدُنا دانیال علیہ السّلام نمازمیں مصروف ہیں اور دونوں شیر کنویں کے ایک کونے میں ہیں اور انہوں نے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔)[7](
کنویں میں عَرض و مَعروض : کنویں میں آپ نے بارگاہِ الٰہی میں یہ عرض کی تھی : اے میرے معبود ! ہماری قوم کی شرمندگی و عیب والی باتوں کے سبب تو نے ہم پر اُس شخص ( بُخْت نَصر ) کو مُسلط کر دیا جو تجھے نہیں جانتا۔)[8](
وظیفہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضیَ اللہ عنہما فرماتے ہیں : جس کو کسی دَرندے سے خطرہ ہوتو یہ دُعا پڑھے دَرندہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے گا : اَللّٰھُمَّ رَبَّ دانِیالَ و رَبَّ الجُبِّ وَرَبَّ کُلِّ اَسَدٍ مُسْتَاسِدٍ اِحْفَظْنِی وَاِحْفَظْ عَلَیَّ یعنی اے دانیال کے رب ! اے کنویں اور شیروں اور درندوں کے رب ! میری حفاظت کر اور مجھے محفوظ رکھ۔)[9](
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی
[1] المنتظم فی تاریخ الامم ، 1 / 418- دلائل النبوۃ لابی نعیم ، ص43
[2] المنتظم فی تاریخ الامم ، 1 / 418 ، 419
[3] المنتظم فی تاریخ الامم ، 1 / 420
[4] تاریخ ابن عساکر ، 71 / 354
[5] تفسیر طبری ، پ15 ، بنیٓ اسرآءیل : 7 ، 8 / 31
[6] تفسیر طبری ، پ15 ، بنیٓ اسرآءیل : 7 ، 8 / 31
[7] موسوعہ ابن ابی دنیا ، 1 / 523
[8] حلیۃ الاولیاء ، 7 / 84 ، رقم : 9739
[9] تاریخ ابن عساکر ، 71 / 348
Comments