اپنے بزرگوں کو یاد رکھئے
*مولانا ابو ماجد محمد شاہد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء
رَمَضانُ المُبارَک اسلامی سال کا نواں مہینا ہے۔ اس میں جن صحابۂ کرام، اَولیائے عظام اور علمائے اسلام کا وِصال یا عُرس ہے، ان میں سے95کا مختصر ذِکْر ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ رَمَضانُ المبارَک1438ھ تا1444ھ کے شماروں میں کیا جاچکا ہے، مزید11کا تعارف ملاحظہ فرمائیے:
صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان:
*شہدائے جنگِ بُوَیْب: یہ جنگ رمضان 13ھ میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی کمانڈ میں دریائے فرات کے کنارے بُوَیْب، نزد کوفہ کے مقام پر ہوئی، مشرکین کا سردار مہران ہمدانی مارا گیا اور مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی، اس میں مسلمانوں کے کئی سردار شہید ہوئے۔ ([1])
(1)حضرت مسعود بن حارثہ شیبانی رضی اللہُ عنہ مشہور مجاہد و فاتحِ فارس حضرت مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہُ عنہ کے بھائی ہیں۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی ان کا شمار اہلِ عرب کے بہادر لوگوں میں ہوتا تھا، یہ حضرت سیّدُنا صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے بھائی کے ساتھ حیرہ، عراق میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔ پھر یہ بابل میں چلے گئے اور اپنے بھائی کے ساتھ شاملِ جہاد ہوئے، آپ کی شہادت رمضان 13ھ میں ہونے والی جنگِ بُوَیب میں ہوئی۔([2])
اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام:
(2)حضرت سیّد عقیل شاہ سمرقندی قوقانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت شعبان 659ھ کو سمرقند کے سادات گھرانے میں ہوئی اور وصال 16رمضان 711ھ کو جائے پیدائش میں ہوا، یہیں مزار مرجعِ عام ہے۔ آپ عالم باعمل، ولیِّ باکمال اور مرشدِ دوراں تھے، آپ نے ازبکستان کے شہر قوقان (Kokand) میں خانقاہ قائم فرمائی، عوام و حکمران مستفیض ہوئے۔([3])
(3)حضرت قطبِ عالم گیلانی المعروف دادا میاں رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش1327ھ میں آستانہ عالیہ سوجا شریف، راجستھان، ہند میں ہوئی۔ آپ مستجابُ الدعوات، عالی مرتبت اور اس آستانے کے سجادہ نشین تھے۔ آپ کا وصال 17رمضان 1382ھ کو ہوا۔([4])
(4)بابا جی سرکار پیر خلیفہ جلال الدین قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش بیرم پور (Birampur) ضلع ہوشیارپور، مشرقی پنجاب ہند میں ہوئی اور آپ نے چک 297جےبی، جھنگ روڈ تحصیل گوجرہ ضلع ٹوبہ دارُالسلام میں 21رمضان 1391ھ میں وصال فرمایا، یہیں مزار ہے۔ آپ سلسلہ قادریہ قلندریہ کے شیخِ طریقت، محبِ صحابہ و اہلِ بیت اور عاشقِ غوثِ اعظم تھے۔([5])
علمائے اسلام رحمہمُ اللہُ السَّلام:
(5)ادیبُ العصر شیخ ابوبکر محمد بن عباس خوارزمی طَبَرخَزِی رحمۃُ اللہِ علیہ مشہور مفسر امام اِبنِ جریر طبری کے بھانجے تھے۔ انہیں 20ہزار اشعار زبانی یاد تھے۔ آپ کافی عرصہ حلب شام میں رہے پھر نیشاپور آگئے۔ دیوانِ ابوبکر خوارزمی اور رسائلِ خوارزمی آپ کی یادگار کتب ہیں۔ آپ کا وصال رمضان 383ھ میں نیشاپور ایران میں ہوا۔([6])
(6)حضرت شیخ سیّد محمد شریف سنوسی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1262ھ کو اور وفات 1313ھ یا 1314ھ کو جغبوب، صوبہ برقہ، لیبیا میں ہوئی، یہیں والدِ گرامی شیخ کبیر محمد بن علی سنوسی کے پہلو میں تدفین ہوئی۔ آپ عالمِ دین، تحریک سنوسی کے مشیر، شعبہ تعلیم و تربیت اور مدرسہ کے سربراہ اور بہترین مدرس تھے، ان کے کُتب خانے میں آٹھ ہزار کتابیں تھیں، آپ کا عرس 27رمضان کو منایا جاتا ہے۔ ([7])
(7)قاضی میاں محمد چشتی سبھرالوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1230ھ کو موضع سبھرال، وادی سون سکیسر ضلع خوشاب کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور وصال 25رمضان 1329ھ کو فرمایا۔ مزار شریف آستانہ عالیہ محمدیہ سیالویہ سبھرال شریف میں ہے۔ آپ علامہ محمد علی مکھڈوی کے شاگرد، جیّد عالمِ دین، مرید و خلیفہ شمسُ العارفین سیالوی اور استاذُ العلماء تھے۔([8])
(8)شیخُ القراء حضرت مولانا ابوالفیض غلام محمد خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 1373 ھ کو لنگر، تحصیل جنڈضلع اٹک میں ہوئی اور 5رمضان 1419ھ کو وصال فرمایا۔ آپ حافظِ قراٰن، فاضل جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد، بہترین قاری، پُراثر واعظ، صاحبِ تصنیف، درسِ نظامی و درجہ حفظ وقراءت کے استاذ، سلسلہ قادریہ میں بیعت اور اپنے بڑے بھائی مفتی ریاضُ الدّین رضوی کے خلیفہ تھے۔([9])
(9)ملک الشعراء خواجہ اکبر وارثی میرٹھی رحمۃُ اللہِ علیہ موضع بجولی ضلع میرٹھ، ہند میں پیدا ہوئے، عربی، فارسی اور اُردو پر عبور تھا۔ آپ بلند پائے کے شاعر تھے۔ حاجی وارث علی شاہ دیوہ شریف سے بیعت کی اور خلافت شبیہِ غوثِ اعظم شاہ علی حسین اشرفی سے حاصل ہوئی۔ آپ کے تقریباً 12دیوان میں سے میلادِ اکبر کو بے پناہ شہرت حاصل ہوئی۔ آپ کے شاگردوں میں حفیظ جالندھری مشہور ہیں۔ آپ کا انتقال 6رمضان 1372ء کو کراچی میں ہوا۔ تدفین میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی۔([10])
(10)استاذُالعلماء حضرت علّامہ فتح محمد محدث بہاولنگری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت وٹو خاندان میں 1304ھ کو موضع حبیب کے ضلع بہاولنگر کے زمین دار گھرانے میں ہوئی اور وصال 29 رمضان 1389ھ کو ہوا، تدفین جامع مسجد فاروق اعظم، فیصل کالونی بہاولنگر سٹی سے جانبِ مشرق کی گئی۔ آپ جید عالمِ دین، جامعِ معقول و منقول، مدرسِ درسِ نظامی، صاحبِ تصنیف، سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے شیخِ طریقت، عربی، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ آپ نے 55سال سے زائد عرصہ تدریس فرمائی، کئی اکابر علمائے اہلِ سنّت آپ کے شاگرد تھے۔([11])
(11)استاذُالعلماء علّامہ غلام محمد تونسوی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش اندازاً 1355ھ میں موضع سنجر سیداں نزد تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں ہوئی اور 6رمضان 1435ھ کو وصال فرمایا۔ آپ استاذُالکل علّامہ عطا محمد بندیالوی کے قابل ترین شاگردوں میں سے تھے، منطق و فلسفہ آپ کے خاص میدان تھے، تدریس میں میلانِ طبعی تھا، اسباق سے پہلے ضرور تیاری کیا کرتے تھے۔ اکابر علمائے اہلِ سنّت آپ کے شاگرد ہیں۔ آپ نے کئی مدارس میں مدرس، صدرُ المدرس اور شیخُ الحدیث کے عہدے پر فائز رہ کر تقریباً 65سالوں میں 30سے زائد علوم پر 100سے زائد کتب پڑھائی ہیں۔([12])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن مرکزی مجلسِ شوریٰ(دعوتِ اسلامی)
Comments