رمضان کی بہاریں اور مسلمان خواتین

اسلام اور عورت

رمضان کی بہاریں اور مسلمان خواتین

*ام میلاد عطاریہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

 اسلامی سال کا نواں مہینا اپنی مثال آپ ہے۔ جو ہر مسلمان کی زندگی پر مختلف پہلوؤں سے اثر انداز ہوتا ہے۔ یوں تو اللہ پاک کی رحمتیں سارا سال ہم گنہگاروں  پر رہتی ہیں لیکن اس ماہ میں جو رحمتوں اور برکتوں کی چھما چھم برسات ہوتی ہے وہ سب مہینوں سے جدا ہے۔ یہ اہم مہینا ماہِ رمضان ہے جس کی آمد سے جہاں ایمان کو پختگی، روح کوتازگی اور جسم کو صحت ملتی ہے وہیں روزمرّہ کے معمولات بھی بدل جاتے ہیں۔ اسلامی تاریخوں سے بالکل نابلد رہنے والوں کو بھی اس کی آمد کا علم ہوجاتاہے۔ مسلمان گھرانوں کی روٹین بدل جاتی ہے۔ شام و سحر کے انداز بدل جاتے ہیں۔ عبادات کی طرف رغبت پیدا ہوتی ہے۔ مسجدوں کے ساتھ ساتھ گھروں سے بھی تلاوت ِقراٰن کی آوازیں ایمان کو فرحت بخشتی ہیں۔ تراویح، صدقہ و خیرات، دعا و اذکار اور دیگر اعمال ِصالحہ کا اہتمام ہونے لگتا ہے۔ مرد اور خواتین سب ہی اپنے اپنے طور پر اس ماہِ مبارک کا استقبال کرتے اور توشۂ آخرت جمع کر نے میں لگ جاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض گھرانوں میں خواتین اس ماہِ مبارک میں بھی عبادت کے لئے اتنی ایکٹیو (Active) نہیں ہوتیں بلکہ ان کی توجہ دوسرے گھریلو کاموں کی طرف اور زیادہ ہوجاتی ہے۔ رمضان میں سحری اور افطار کی تیاریوں کو ہی وہ اپنے لئے کافی سمجھتی ہیں اور اسی میں مشغول رہتی ہیں۔

اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ سحر و افطار کے وقت دسترخوان کی رونقوں کو بڑھانے کے جذبے کےساتھ ساتھ  دیگر عبادات کی طرف بھی رغبت کرنی چاہئے۔ خواتین پر انواع و اقسام کے کھانے بنانے کی ایک دُھن سوار ہوجاتی ہے۔ محنت، توجہ اور لگن سے دسترخوان کو اسپیشل بنانے کے لئے جتنا وقت دیا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس ماہ میں ثوابِ آخرت دلانے والے کاموں میں لگ کر اپنے نامہ ٔ اعمال کو سنوارا جائے۔

اسی طرح گھر کے دیگر افراد کو بھی خیال کرنا چاہئے جو سحری یا افطاری میں من پسند چیز نہ ملنے یا تاخیر ہوجانے پر خواتین کو کوسنا شروع کردیتے ہیں۔

خواتین و حضرات! سبھی کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس ماہ کی آمد کا مقصد قراٰنِ مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:

( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳))

ترجَمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ ([1]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پیاری اسلامی بہنو!روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور اسے کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور بُرے کاموں سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔ اگر ہم یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہیں تو پھر اس ماہ ِ مبارک کی آمد کے فیضان کی کیسے مستحق بن سکیں گی۔

بعض اوقات گھر کے کاموں میں مصروفیت کے عذر کی وجہ سے نمازوں کو وقت پر ادا نہ کرنے  اور انہیں قضا کرنے کے سنگین گناہ کو بھی خواتین معمولی سمجھتی ہیں۔ کاموں کی افراتفری میں کبھی نماز کو مکروہ وقت میں  ادا کرتی ہیں۔حالانکہ تاریخِ اسلام کی بزرگ خواتین کی سیرت دیکھی جائے تو  معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے، چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے بارے میں آتا ہے کہ آپ رمضانُ المبارک میں تراویح کا خاص اہتمام فرماتیں اور رمضان تو رمضان اس کے علاوہ بھی اکثر روزے رکھا کرتیں۔([2])لہٰذا  رمضان شریف میں معمولات کو اس طرح ترتیب دینا چاہئے کہ نماز اور دیگر عبادات کو بحسن و خوبی بجالانے کے ساتھ ساتھ سحر اور افطار کے بابرکت لمحات میں ہم بھی اپنے پیارے ربِّ کریم  کی بارگاہ میں دعائیں مانگتی رہیں۔یہ بہت قیمتی لمحات ہوتے ہیں اور روزہ دار کی افطار کے وقت مانگی گئی دعا رد نہیں ہوتی۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک روزہ دار کے لئے اِفطار کے وقت ایک ایسی دُعا ہوتی ہے جو رَد نہیں کی جاتی۔([3])

بوقتِ افطار دعا کرنے والے کی دعا کی قبولیت کی بشارت ہے اور حدیث پاک میں ہے کہ  آسمان کے دروازے اُس کےلئے کھل جا تے ہیں اور اللہ پاک فرماتا ہے:مجھے میری عزت کی قسم!میں تیری ضرور مَدَد فرماؤں گااگرچہ کچھ دیر بعد۔ ([4])

خواتین چاہیں تو گھریلو مصروفیات میں  سے اپنے لئے وقت نکال سکتی ہیں یہ ناممکن یا اتنا مشکل کام نہیں ہے دراصل ہمیں اس بات کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ اس مہینے کے ایام اور لمحات کس قدر با برکت ہیں اور یہ کتنا بڑا اللہ پاک کا انعام ہیں جسے ہم کچن کے غیر ضروری کاموں میں الجھ کر غفلت کی نذر کر دیتی ہیں۔

آج کل تویہ بھی ذہن بنتا جارہا ہے کہ گھریلو کام کاج کی زیادتی کی وجہ سے خواتین  فرض روزہ چھوڑ دیتی ہیں اور حاملہ خاتون کے بارے میں تو کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اسےروزہ معاف ہے جب کہ ایسا نہیں ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ”حاملہ کے لئے اس وقت روزہ چھوڑنا جائز ہے جب اپنی یا بچے کی جان کے ضیاع کا صحیح اندیشہ ہو، اس صورت میں بھی اس کے لئے فقط اتنا جائز ہوگا کہ فی الوقت روزہ نہ رکھے بعد میں اس کی قضا کرنا ہوگی۔“([5])

 اللہ پاک ہمیں اس ماہ کی قدر عطا فرمائے۔نیک بیبیوں کی سیرت اور عبادات کی رغبت میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ نصیب فرمائے جو نہ صرف فرض بلکہ نفل روزوں کا بھی کثرت سے اہتمام کرتی تھیں۔ گھریلو کام کاج میں بھی کمی نہ آنے دیتیں اور اولاد کی تربیت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑتی تھیں۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن



([1])پ2،البقرۃ:183

([2])موطا امام مالک، 1/121، رقم:260،سیرت مصطفیٰ، ص660

([3])ابنِ ماجہ، 2/350، حدیث:  1753

([4])ابنِ ماجہ،2/349،حدیث: 1752

([5])ماہنامہ فیضان مدینہ، رمضان المبارک1441ھ، ص46


Share

Articles

Comments


Security Code