اسلام مکمل ضابطہ حیات کیسے؟

آخر درست کیا ہے؟

اسلام مکمل  ضابطہ حیات کیسے؟

*مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

اسلام  ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ ہمارا ایمان ہے اور دعویٰ بھی۔  ضابطہ حیات کا مطلب   ’’زندگی گزارنے   کے طریقوں کا جامع قانون، دستورالعمل‘‘۔ اسلام کے   مکمل ضابطہ حیات  ہونے   کا مطلب یہ ہے کہ جب جب حیات پائی جائے گی، تب تب اسلام کے احکام پائے جائیں گے اور جہاں جہاں حیات ہوگی وہاں وہاں ا سلام کے احکام ہوں گے۔انسانی حیات کی ابتدا اس کی پیدائش سے ہوتی ہے، بچہ پیدا ہوتا ہے تواس کی زندگی کا دورانیہ شروع ہوجاتا  ہے،پھر اس وقت سے لے کر موت تک  دنیا کی زندگی  جاری رہتی ہے اور اس پورے دورانیے میں اسلام کی رہنمائی قدم بقدم ساتھ رہتی ہے۔

اسلامی ضابطہ حیات کا آدمی کی  پیدائش سے پہلے ظہور:

 اسلام کی  رہنمائی  بچے کی پیدائش سے نہیں، بلکہ  اس سے بہت  پہلے  شروع ہوجاتی ہے یہاں تک  کہ بچے کے ماں باپ کی شادی سے بھی پہلے اسلامی رہنمائی  کا آغاز ہوجاتا ہے، مثلاً دین ِ اسلام  نے سکھایا  کہ شادی  کا خواہشمند یہ دیکھے کہ کس طرح کی لڑکی سے شادی  کررہا ہے؟  اس لڑ کی کا خاندانی پسِ منظر کیسا ہے؟  لڑکی کا اخلاق ،کردار اور حسن وجمال کیسا ہے؟ اور اس میں کردار سب سے مقدم رہے  ۔ مزید یہ تعلیم ہے کہ   شادی ایسے خاندان میں کرے جن کےاخلاق  و اطوار اچھے ہوں اوراپنی  شرافت سے پہچانے جاتے ہوں۔ یہ سب اس لئے ہے  کہ بچہ  جب پیدا ہوگا تویقیناً  اس کا میل جول  ننھیال کے ساتھ ہوگا۔ ننھیال کے جو اوصاف ہوں گے،بچہ وہ اپنائے  گا ۔ یہی معاملہ شادی کرنے والی لڑکی کی طرف سے بھی ہے کہ وہ بھی لڑکے اور اس کے خاندان کے متعلق مذکورہ بالا چیزیں دیکھے کہ ننھیال سے زیادہ تو لڑکے نے ددھیال میں رہنا ہے۔  اب اندازہ لگائیے کہ بچےنے جو اوصاف، اخلاق چند سالوں بعد  اپنانے ہیں، اس کے اتنا عرصہ پہلے ہی اس کے بارے میں اسلامی ہدایات شروع ہوچکی ہیں۔

اسلامی ضابطہ حیات کی رہنمائی، پیدائش سے جوانی کی ابتدا    تک:

  جب  بچہ پیدا  ہو، توپہلا  حکم یہ ہے کہ کسی نیک اور بااخلاق آدمی سے بچے کو گھُٹی دلائی جائے اور بچے کے کان میں اذان دی جائے ،پھر سات دن کا ہونے پر  اس کا عقیقہ کیا جائے اور اچھا سا نام رکھا جائے پھر بچے کے ختنے کا حکم ہے۔ اس کے ساتھ بچے  کو  دودھ پلانے کے احکام ہیں کہ ماں اسے کتنے عرصہ تک دودھ پلائے ، بچے کی پرورش کے اخراجات کس کے ذمہ ہیں؟ اگر  ماں باپ میں علیحدگی ہوجائے توبچہ  کتنا عرصہ  ماں کے پاس رہے گا اور کب باپ کے حوالے کیا جائے گا؟ اسی طرح جب  بچہ کچھ بولنے، الفاظ ادا کرنے کی عمر تک پہنچے تو  سب سے پہلےاس کے سامنے بار بار لفظِ ’’اللہ‘‘  کہا جائے تاکہ پہلا لفظ جوبچہ سیکھ کر زبان سے ادا کرے  وہ  اپنے خالق و مالک اور پروردگار کا نام ِ مبارک  ’’اللہ‘‘ ہو۔

  جب بچہ پانچ سات سال کا ہوجائے،تو اسے  دین کی بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلانی شروع کردی جائے، سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے،دس سال کا ہوجائے تو  سختی سے نمازکی پابندی کروائی جائے۔اسی عمر میں عبادت کے ساتھ اس کے اخلاق پر بھرپور توجہ دی جائے ۔ بچے کو عملی طور پر  سخاوت،حسنِ اخلاق ،ملنساری، مسکراہٹ، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت، مخلوق ِ خدا سے حسن سلوک  اور پڑوسیوں سے اچھے رویےکی تعلیم دی جائے۔ اسلام کا فرمان یہ ہے کہ  والدین کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کریں اور اچھے آداب سکھائیں کیونکہ اچھی تربیت ہی سے بچہ اچھا مسلمان اور معاشرے کےلئے بہتر  انسان بنے گا۔

اسلامی ضابطہ حیات زندگی کے مختلف شعبوں میں :

بچے کے بالغ ہونے کے بعد جملہ احکامِ اسلام اس کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور زندگی کے جملہ شعبوں میں اسلامی تعلیمات  پوری تفصیل کے ساتھ اُس پر نافذ  ہوجاتی ہیں اور اب وہ خود اُن کا جواب دہ ہوتا ہے۔

اسلامی ضابطہ حیات معاشرتی زندگی میں:

ایک انسان اپنے  ماں باپ کے لیے بیٹا ہے، بہن بھائیوں کے لیے بھائی  ہے، دادا نانا کے لیے پوتا ، نواسہ  ہے۔ اس کی ہر حیثیت پر اسلام کی تعلیمات جدا جدا ہیں، جن میں دوسروں سے تعلق کی نوعیت بھی پیش نظر ہے اور اُس تعلق کا قرب و بعد بھی یعنی جو رشتہ جتنا قریب ہے اس کے متعلق اتنے زیادہ احکام ہیں۔ اسی لئے ماں باپ کے ساتھ تعلق کے اعتبار سے الگ   احکام ہیں ، بہن بھائیوں، چچا، ماموں، پھوپھی خالہ کے اعتبار سے    جدا    احکام  ہیں، پھر کہیں محرم ہونے کا رشتہ ہے تو کہیں صرف قرابت کا۔ الغرض ایک بہت معقول اور جامع تفصیل ہے۔ رشتے داروں کے علاوہ  معاشرتی زندگی میں دیگر بھی بہت سے تعلقات ہوتے ہیں جیسے  انسان جس جگہ رہتا ہے، وہاں اس کے پڑوسی بھی ہوتے ہیں،اسلامی ضابطہ حیات میں  پڑوسیوں کے حقوق بھی بہت وضاحت و صراحت سے بیان کئے گئے ہیں۔یونہی زندگی کا نہایت اہم رشتہ میاں بیوی کا ہے،  اسلامی قانون میں  میاں بیوی کے  حقوق و فرائض  اور عدل و احسان کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا ہے کہ وہ  پوری پوری کتابوں میں سماتے ہیں۔

اسلامی ضابطہ حیات  معاشی زندگی  میں :

انسانی  زندگی بہت سی  ضرورتوں کا تقاضا کرتی ہے جن کی تکمیل کے لیے  انسان کوئی ذریعہ معاش اختیار کرتا  ہے۔  کمانے کی عام طور پر دو  صورتیں ہیں :  نوکری   یا کاروبار۔  اگر نوکری ہو تو اسلام نے نوکری، ملازمت، اجارہ، اجیر ، مستاجر وغیرہا کے الفاظ  سے احکام کا ایک پورا مجموعہ عطا کیا ہے، مثلاً اجرت کی تعیین، عمل کی مقدار، مدت کا طے کرنا وغیرہا، یونہی  ملازموں کے اپنے سینئر اورجونیئر کے حوالے سے احکام۔

دوسری طرف  اگرکمائی کا ذریعہ  کاروبار ہے تواس کے اپنے مفصل احکام ہیں بلکہ کاروبار میں دیگر شعبہ ہائے زندگی سے زیادہ  تفصیل ہے کیونکہ کاروبار کی  اقسام  بہت سی ہیں، کپڑے کا،  سونے کا ، گندم کا ، جانوروں  کا وغیرہا ۔ اس میں سونے چاندی کے احکام جدا ہیں، جانور بیچنے کے جدا، کپڑابیچنے کے جدا ۔ الغرض کاروبار کے متعلق تفصیلات قرآن و حدیث میں بہت متنوع انداز میں بیان کی گئی ہیں۔

اسلامی ضابطہ حیات، وقتِ موت اور اس کے بعد کے متعلق:

انسان کی موت سے متعلق بھی دینِ اسلام کی مکمل ہدایات  موجود ہیں مثلاً، موت کے وقت کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے، آدمی کا خاتمہ ایمان پر ہو، موت کے بعد  میت کے غسل، کفن، دفن، جنازہ کے احکام  ہیں،قبر کی کھدائی، لمبائی، چوڑائی اور اس کے بعد کے متعلق  کئی احکام ہیں یہاں تک  کہ حکم ہے کہ قبر کو دوبارہ نہ کھولا جائے، میت کی حالت کو ظاہر نہ کیا جائے، قبر پر چلنا، پھرنا، بیٹھنا حرام ہے، قبر اور میت کی بے حرمتی ناجائز ہے وغیرہا۔ 

اسی کے ساتھ میت کے چھوڑے ہوئے مال کے مفصل احکام ہیں ، مثلاً: میت کا قرض ادا کرکے اسے سبکدوش کیا جائے، پھر  اس کی وصیت  پر عمل کیا جائے، پھر  اس کے ورثا میں   مالِ وراثت  تقسیم کیا جائے ۔

اسلامی  ضابطہ حیات ، زندگی کے جدید اُمور میں :

انسانی زندگی ہر دم رواں ہے، ترقیوں کا سفر جاری ہے، نت نئی ایجادات کی کثرت ہے، ہر نیا دن نئے انکشافات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، مفید کے ساتھ مضر اور نفع بخش کے ساتھ ہلاکت خیز چیزیں ایجاد ہورہی ہیں، زندگی کشادگی کے باوجود تنگی کا شکار  ہے،ایک دوڑ کا سماں ہے جس میں مادیت اور مادہ پرستی سب سے آگے ہے۔ ایسے بے شمار، لاتعداد معاملات ِ حیات میں اسلامی ضابطہ حیات کی جامعیت زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے کہ کثیر جزوی اُمور پر صریح ہدایات کے ساتھ  اسلام نے ایسے جامع قواعد و ضوابط اور قوانین عطا کئے ہیں، جن کی روشنی میں نئے نئے معاملات میں مقصودِ شریعت اور روحِ دین کو سمجھ کر بآسانی عمل کیا جاسکتا ہے۔ ان اصولوں میں بہت سے وہ ہیں جن کا تعلق اجتہاد و تدبر سے ہے اور بہت سے وہ ہیں جن کا انطباق عام سا فہم رکھنے والا آدمی بھی بآسانی کرسکتا ہے جیسے یہ بنیادی تعلیم ہے کہ مخلوق ِ خدا کو ہلاک و تباہ کرنے کے لئے کسی بھی چیز کااستعمال نہ کیا جائے، اس اُصول میں تمام مہلک ایجادات کا استعمال داخل ہے۔ یونہی عام اخلاقی تعلیم ہےکہ دوسروں کی خیرخواہی کو بنیادی ترجیح کے طور پر اختیار کیا جائے لہٰذا   ڈاکٹر ہو یا انجینئر ، حکمران  ہو یا افسر، سب اس اُصول کو پیشِ نظر رکھیں۔ ڈاکٹر، معالج رہے، کمائی کا حریص اور ہسپتالوں کی لوٹ مار کا معاون نہیں۔  انجینئر، نفع رساں رہے، مہلک ایجادات  کے گناہ کا شریک کار نہیں۔  حاکم، لوگوں کے بوجھ اٹھانے والا اور حکومتی خزانہ عوام پر خرچ کرنے والا بنے، دولت سمیٹنے، کرپشن کرنے، لوگوں کو بوجھ تلے دبانے والا نہیں۔

الغرض انسانی زندگی کے جملہ پہلو خواہ  محض کسی ایک شخص کی ذات سے متعلق ہوں یا وہ دوسرے لوگوں سے ،اس کے جسم و جان کے بارے میں ہوں  یا مال کے  متعلق ، گھریلو زندگی ہو یا خارجی،  ہر پہلو کے اعتبار سے اسلامی تعلیمات موجود ہیں ، اور یہی امر اس بات کی کامل دلیل ہے کہ دینِ اسلام ایک  مکمل ضابطہ حیات ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code