اسلام کا نظام
اسلام اور تعلیم(قسط:03)
*مولانا عبدالعزیز عطاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء
(5)تعلیم سب کے لئے
ابتدا میں نظامِ تعلیم کسی مخصوص جگہ اور محدود پیمانے پر ہوتا ہے، تعلیمی و تربیتی کارکردگی اور بہترین ماحول کی وجہ سے اس میں نکھار پیدا ہوتا ہے اس کو مزید پھیلانے اور مختلف لوگوں کو اس سسٹم کا حصہ بنانے کے لئے مشاورتی کمیٹی اور انتظامی معامالات ترتیب پاتے ہیں جس کے لئے بہترین نصاب، ماہر اساتذۂ کرام اور اس نظام کو اچھے طریقے سے چلانے اور سنبھالنے کےلئے مختلف لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے جن کا انتخاب ان کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، نظام کی مضبوطی کے لئے کسی شخص کو زیادہ ذمہ داریاں بھی دی جا سکتی ہیں، تعلیمی اور تربیتی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے طلبۂ کرام کو مختلف کلاسوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ہر قسم کے ریکارڈ تیار کئے جاتے ہیں اور دستاویزات محفوظ کی جاتی ہیں۔
شخصی تعلیم: حضرت شہاب قرشی رضی اللہُ عنہ کو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پورا قراٰن مجید پڑھایا تھا، بعد میں حمص کے عام لوگ اُن سے قراٰن مجید پڑھتے تھے۔([1]) حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ نے حضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے سورۂ بقرہ کی تفسیر بارہ سال میں پڑھی۔([2])
اجتماعی تعلیم:ایک بار حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہُ عنہ نے حضور علیہ السّلام کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوکر اصحابِ صفّہ کو قراٰن مجید پڑھا رہے ہیں اور بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھاہوا تھا تاکہ کمرسیدھی رہے۔([3])
تعلیم سب کے لئے:انسان کو ہر وقت علم کا متلاشی رہنا چاہئے اور ساری زندگی علم کے حصول کے لئے کوشاں رہے یہ کسی وقت،جگہ اور عمر کے ساتھ خاص نہیں بلکہ بچے بوڑھے مرد و خواتین اور معذور سب حاصل کر سکتے ہیں البتہ بچپن میں علم، ذہن میں نقش ہو جاتا ہے اور بڑی عمر میں حاصل کیا ہوا علم بسااوقات بھول جاتا ہے لیکن علم سب کو حاصل کرنا چاہئے۔
بچّوں کی تعلیم: کسی والد نے اپنے بچے کو اچھے آداب سکھانے سے بہتر ین کوئی تحفہ نہیں دیا۔([4]) نَوعمری میں تعلیم حاصل کرنا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش اور بڑھاپے میں تعلیم حاصل کرنا جیسے پانی پر نقش ہو۔([5])
خواتین کی تعلیم: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہفتہ میں خواتین کے لئے دن اور جگہ مقرر فرمائی اور ان کو تعلیم دیتے تھے۔([6]) آپ علیہ السّلام نے سورۂ بقرہ کی آخری آیات خواتین کو سکھانے کا حکم دیا۔([7])
تعلیمِ بالغان:بوڑھا آدمی جوان سے علم حاصل کرنے میں نہ شرمائے۔([8])
(6)تعلیم مفت بلکہ وظائف بھی
علم حاصل کرنے کے لئے مسلسل محنت، کوشش اور اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے، بہت کم افراد اپنے علمی مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں جس کی ایک بنیادی وجہ تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے نادار اور غریب طلبۂ کرام کا محروم رہ جانا ہے، ان کے تمام سنہری خواب اور امنگیں چکنا چور ہو جاتی ہیں لہٰذا تعلیم مفت ہونی چاہئے یا معمولی قیمت میں ہو تاکہ ہر شخص اس سے مستفید ہو سکے بلکہ غریب طلبۂ کرام کے لئے تو وظائف کا اہتمام بھی ہونا چاہئے تاکہ دوسرے لوگوں کی طرح یہ بھی خوشی سے تعلیم حاصل کر سکیں۔
طلبہ کے اخراجات بھی برداشت كئے جائیں:حضرت سیدنا وَردان رضی اللہُ عنہطائف سے آئے تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو حضرت ابان بن سعید رضی اللہُ عنہکے حوالے کیا کہ ان کے مصارف کا بار اٹھائیں اور ان کو قراٰن مجید کی تعلیم بھی دیں۔([9])
لوگوں میں علم کی جستجو پیدا کیجئے:حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہنے اپنے بعض گورنروں کو لکھا کہ لوگوں کو قراٰن پاک سیکھنے پر وظائف دیں چنانچہ انہوں نے ایسا کیا اور پھر آپ کو لکھا کہ اب قراٰن مجید سیکھنے میں ایسے لوگوں کی رغبت بھی بڑھ گئی ہے جنہیں پہلے کبھی ایسی جستجو نہ تھی۔([10])
(7)صلاحیت کے موافق سیکھنے کی ترغیب
پوشیدہ صلاحیتیں اجا گر کیجئے:ہر شخص اپنی فطرت کے اعتبار سے تعلیم، فن، ہنر یا کاروبار وغیرہ میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس کی طرف اس کا قلبی میلان بھی زیادہ ہوتا ہے، اگر اسی فن میں اس کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے تو وہ بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن اگر کسی دوسرے کام میں مصروف ہو جائے تو وہ قلبی طور پر مطمئن نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے زیادہ فوائد حاصل ہوں گے تو ان کی فطرت تلاشی کرنا ضروری ہے کہ کس کو کیا پڑھانا اور کیا سکھانا ہے۔
تعلیم سے کس کو آراستہ کریں: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حق داروں سے علم روک کر ان پرظلم نہ کرو اور نااہلوں کو حکمت سکھا کر ان پر ظلم نہ کرو۔([11]) نااہلوں کو علم دینا، خنزیروں کے گلے میں ہیرے،موتی اور سونے کے ہار لٹکانے کی طرح ہے۔([12])
مختلف زبانیں سیکھئے:دنیا میں مختلف لب و لہجے اور زبانوں کے لوگ آباد ہیں۔ اس لئے اُن کو علم سے آراستہ کرنے کے لئے ان کی زبان کا سیکھنا ضروری ہے چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہُ عنہکو سُریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے آدھے مہینے سے بھی پہلے سیکھ لی، فرماتے ہیں: جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہود کی طرف خط لکھنا ہوتا تو میں لکھتا اور جب یہود کچھ لکھتے تو میں اُن کے خطوط پڑھتا۔([13])
(8)نظامِ تعلیم کی بہتری و مضبوطی کے اقدامات
اہل افراد کا تقرر:حضرت سیدنا عبد اللہ بن سعید رضی اللہُ عنہکو حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم دیا کہ وہ مدینہ طیبہ میں لوگوں کو لکھنا سکھائیں کہ وہ بہترین کاتب تھے۔([14]) حضرت عُبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ میں نے اصحابِ صُفّہ کے بعض افراد کو قراٰن مجید پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔([15])
باصلاحیت افراد کو ذمہ داری دینا:حضرت مسعود بن وائل رضی اللہُ عنہنے حضور علیہ السّلام کی خدمت میں عرض کیا: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہِ وَسَلَّمَ! آپ میری قوم کی طرف کسی آدمی کو روانہ کریں جو ان میں اسلام کی تبلیغ کرے تو حضور علیہ السّلام نے انہیں ایک فرمان لکھ کر دیا اور ان کو حکم دیا کہ وہ خود اپنے قبیلے میں نیکی کی دعوت کاکام کریں۔ ([16])
نوعمر لیکن باصلاحیت استاذ کا تقرر:حضرت عمرو بن حزم انصاری رضی اللہُ عنہکو حضور علیہ السّلام نے نجران کے لئے مقرر فرمایا تاکہ وہ اہلِ نجران کو دین سکھائیں قراٰن مجید کی تعلیم دیں اور صدقات وصول کریں اس وقت آپ کی عمر مبارک سترہ سال تھی۔([17])
بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments