کسی کا مذاق مت اڑائیں

فریاد

کسی کامذاق مت اڑائیں

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے اعتبار سے سوسائٹی کو پُرامن بنانے کےلئے بڑی ڈیبیٹس کر تے ہیں، اس ٹاپک پر بہت اسپیچز ہوتی ہیں اور آرٹیکلز بھی لکھے جاتے ہیں۔ مگر دینِ اسلام نے معاشرے کو پیس فُل بنانے کے جو احکامات اور قوانین عطا فرمائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔لہٰذا اگر آپ آپس کی نفرتوں کو مٹانا اور لڑائی جھگڑوں سے بچنا چاہتے ہیں، اپنے گھر اور باہر کے ماحول کو پُرامن دیکھنا چاہتے ہیں، معاشرے کو پیار بھرا بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے دینِ اسلام نے جو تربیت کے مدنی پھول عطافرمائے ہیں ان پر اچھے طریقے سے عمل کریں۔ ہمارے معاشرے کا ایک کمزور پہلو”کسی کا مذاق اڑانا“بھی ہے۔

کسی پر ہنسنے اور اس کا مذاق اڑانے کی اس بُری حرکت سے منع کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-)

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو !مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔ ([1])

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی مال دار غریبوں  کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں  جس کی آنکھ میں  عیب ہو،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں  سے صدق اور اخلاص میں  بہتر ہوں ۔([2])کسی کے ساتھ ایسا مذاق کرنا کہ جس سے اس کو تکلیف پہنچے، اس سے اللہ پاک کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی روکا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:” لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہُ یعنی اپنے بھائی سے نہ تو جھگڑا کرو اور نہ ہی اس کا مذاق اڑاؤ۔“([3])حکیمُ الاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کا مذاق اڑانا جس سے سامنے والے کو تکلیف پہنچے بہرحال حرام ہے وہ ہی یہاں مرادہے کیونکہ مسلمان کو ایذاء دینا حرام ہے۔([4])

شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ یاد رکھئے! کتابوں میں جس طرح ”ناحق قتل“،” بدکاری“ اور ”شراب پینے“ کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ کہا گیا ہے([5])اسی طرح لوگوں کا مذاق اڑانے کو بھی کہاگیا ہے،چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا وہب بن منبہ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتےہیں: اللہ پاک کے نزدیک شرک كےبعد سب سے بڑا گناہ لوگوں کامذاق اڑانا ہے۔([6])

مذاق اڑانے کا شرعی حکم مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ”اِہانَت اور تحقیر کیلئے زبان یا اِشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔“([7])امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں: شرعی حدود میں رہتے ہوئے مذاق کرنا جائز ہے، لیکن اس میں کسی کی دل آزاری، نقصان اور جھوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ بعض لوگ مذاق میں کسی کا دل دُکھا رہے ہوتے ہیں اور سامنے والا جھینپ مٹانے کے لئے ہنس رہا ہوتا ہے۔یاد رکھئے! پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے، لیکن آپ کا خوش طبعی کرنا دل آزاری، نقصان اور جھوٹ سے پاک تھا۔ مذاق میں ان چیزوں سے بچنا بہت مشکل ہے، لہٰذا ہمارے لئے اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ نیز مذہبی شخص کو زیادہ مذاق کرنے سے بچنا چاہئے خصوصاً عوام کے سامنے، کیونکہ اس وجہ سے لوگ اس سے دور ہوجائیں گے اور اس کی علمی خوبیوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔([8])

کسی شخص میں پائی جانے والی عارضی خرابی مثلاً اس کے بالوں یا لباس وغیرہ کے انداز کا بےتُکا ہونا یا پھر اس کی عارضی کمزوری مثلاًمحتاجی اور غریبی کے آثار کو دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا۔اسی طرح کسی شخص میں پائی جانے والی مستقل اور فطری خرابی یاکمزوری کہ جس کے پیچھے خود اس بندے کا کوئی عمل دخل نہ ہو مثلاً وہ ”بہرا یا کم سنتا ہو، بھینگا، کانا، تَوتْلا، لنگڑا، چھوٹے قَد کا یا پھر کالے رنگ کا ہو،ان وجوہات میں سے کسی وجہ سے اس کا مذاق اڑانا۔ یہ ایسی بُری عادت ہے جو لوگوں کے دلوں کو توڑتی اور انہیں دُکھاتی ہے، محبت کی جگہ نفرت کے بیج بوکرلوگوں کو ہمارے خلاف کردیتی، اپنوں کو پرایا بنادیتی اور ساتھ ہی دِلی عزّت اور احترام والی سوچ کو بھی مار دیتی ہے۔

جس کا ہم مذاق اڑاتے ہیں وہ ہم سے کم مرتبے کا ہوتا ہےیا برابر کا یا پھر زیادہ مرتبے کا۔ اگروہ ہم سے کم مرتبے کا یا ہمارا ماتحت ہے کہ مذاق اڑانے پر نہ تو ہمارے سامنے وہ کچھ بول پارہا اور نہ ہی ہمارے خلاف کچھ کر پار ہا ہے اور مجبوراً بظاہر ہماری عزت اور ہمارا احترام بھی کررہا ہے، جب ایسے کسی شخص کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو وہ کیا کچھ کرگزرتا ہے ملاحظہ کیجئے: امیر ِاہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ارشاد فرمایا: کھارادر(کراچی) کا ایک واقعہ مجھے وہاں کے ایک رہائشی نے سنا یا تھا کہ علاقے کا ایک بَدمَعاش لوگوں کے سامنے ایک لڑکے کا مذاق اُڑاتا رہتا تھا، وہ بے چارہ ڈرکی وجہ سے اس کے سامنے کچھ بول نہیں سکتا تھا اور اندر ہى اندر گھلتا رہتا تھا،اىک بار اسی بَد مَعاش نے جب اس کا نام بگاڑا ىامذا ق اُڑاىا تو اس لڑکے کا دماغ گھوم گیا اور اس نے اس بات کو بہت زىادہ دِل پہ لے لىا کہ ىہ بَدمعاش کب تک مجھے ستاتا رہے گا؟ آخرِکار اس لڑکے نے کہىں سے پستول لیا اور موقع پا کر اس بَدمعاش کو قتل کر کےکہیں بھاگ گىا۔([9])

اُس لڑکے کا یوں قتل کرنا نہ تو شرعاً جائز تھا اور نہ ہی قانوناً درست تھا البتہ یہ اقدام مذاق اڑانے سے شروع ہوا ۔

نیز اپنے سے زیادہ مرتبے والے کا مذا ق ہم عام طور پر اس کی پیٹھ پیچھے ہی اڑاتے ہیں جو کہ عام طور پر غیبت شمار ہوتا ہے، بعد میں اگر اس شخص کو ہماری ایسی کوئی بات پتا چلتی ہے تو اس کا دل دُکھ جانے کی صورت میں غیبت کے   علاوہ اس کی دل آزاری کا گناہ بھی ہمارے نامۂ اعمال میں  شامل ہوجاتا ہے اور ساتھ ہی ہماری ایسی حرکت دنیاوی اعتبار سے بھی ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے!اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کےلئے زبان، اشارے یا کسی اور طریقے سے کسی کا مذاق مت اڑائیے،اللہ پاک ہمیں دینِ اسلام کے احکامات پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])پ26،الحجرات:11

([2])صراط الجنان،9/425

([3])ترمذی، 3/400، حدیث:2002

([4])مراٰۃ المناجیح،6/501

([5])الزواجر،2/188،فیض القدیر، 6/524،تحت الحدیث:9803

([6])حلیۃ الاولیاء،4/54،رقم: 4721

([7])جہنم کے خطرات،ص173

([8])مدنی مذاکرہ،10ربیع الاول 1442ھ مطابق 27 اکتوبر 2020 ء

([9])مدنی مذاکرہ2رَمَضان شریف 1441ھ، بعد نمازِ تراويح،مطابق 25 اپریل 2020ء


Share