باتیں میرے حضور کی
مبارک آواز کا اعجاز
* کاشف شہزاد عطاری مدنی
ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چونکہ اللہ پاک کی ساری مخلوق میں سب سے افضل ، اعلیٰ اور ممتاز ہیں لہٰذا آپ پر اللہ کریم کی خصوصی عطائیں اور نوازشیں بھی بے شمار ہیں۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ان بے شمار خصوصی شانوں میں سے 4 کا مطالعہ فرماکر اپنا ایمان تازہ کیجئے :
(1)سب سے آسان شریعت عطا کی گئی : اللہ پاک نے اپنے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب سے آسان شریعت عطا فرمائی۔ ([i])
قراٰنِ کریم میں رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے : ) وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ كَانَتْ عَلَیْهِمْؕ-( تَرجَمۂ کنز العرفان : اور ان کے اوپر سے وہ بوجھ اور قیدیں اتارتے ہیں جو ان پر تھیں۔ ([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
بنی اسرائیل کے لئے چند سخت احکام : بدن یا کپڑے پر پیشاب وغیرہ نجاست لگ جائے تو وہ دھونے سے پاک نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے کاٹنا ضروری تھا۔ شرک کی توبہ میں اپنے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ جن اعضاء (Body Parts) سے گناہ صادِر ہوں ان کو کاٹ ڈالنے کا حکم تھا۔ تَیَمُّمْ کی سہولت حاصل نہ تھی۔ مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ ہفتے کے دن شکار کرنے کی اجازت نہ تھی وغیرہ۔ ([iii])
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : بُعِثْتُ بِالْحَنِيْفِيَّةِ السَّمْحَةِ یعنی مجھے ایسے دین کے ساتھ بھیجا گیا ہے جو باطل سے جدا اور آسان ہے۔ ([iv])
(2)4ہزار مَردوں کے برابر قوت : سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو 4ہزار مَردوں کے برابر قوت عطا کی گئی تھی۔ ([v])
پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو 40 جنّتی مَردوں کے برابر طاقت عطا فرمائی([vi]) اور ایک جنتی مرد کی طاقت دنیا کے 100 مَردوں کے برابر ہوتی ہے۔ ([vii]) نتیجہ یہ نکلا کہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو 4 ہزار مَردوں جتنی طاقت حاصل تھی۔
وہ ہے زورِ یَدُاللّٰہی کہ ہمسر دونوں عالم میں
نہ کوئی ان کی قوت کا نہ کوئی ان کی طاقت کا ([viii])
(3)ساری زمین کو مسجد بنا دیا گیا : سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے اور آپ کے طفیل آپ کی امت کے لئے ساری زمین مسجد (یعنی نماز پڑھنے کی جگہ) اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے۔ ([ix])
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ اَحَدٌ قَبْلِي یعنی مجھے 5ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ (ان 5 میں سے ایک بات یہ بیان فرمائی : ) جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّطَهُوْرًا فَاَيُّمَا رَجُلٍ مِّنْ اُمَّتِیْ اَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ یعنی تمام روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور پاک کرنے والا بنا دیا گیا ہے۔ میری اُمّت کے جس شخص پر جہاں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لے۔ ([x])
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس کے تحت فرماتے ہیں : دوسرے نبیوں کے دِینوں میں نماز صرف ان کے عبادت خانوں میں ہوتی تھی گِرجوں (Churches) وغیرہ میں ، میری اُمّت (ممنوعہ مقامات کے علاوہ)تمام رُوئے زمین پر جہاں چاہے نماز پڑھ سکتی ہے۔ نیز کسی دین میں تَیَمُّمْ نہ تھا یہ صرف میرے دین میں ہے ، غسل اور بے وُضوئی دونوں کا تیمم زمین پر ہوسکتا ہے یہ ہماری خصوصیات میں سے ہے۔ ([xi])
(4)آواز مبارک کا دور تک پہنچنا : حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آواز مبارک اتنی دور تک پہنچتی تھی جہاں تک کسی دوسرے کی آواز نہ پہنچتی تھی۔ ([xii])
اپنے خیموں میں خطبہ مبارک سُن لیا : حضرت سیّدُنا عبد الرحمٰن بن معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (حِجَّۃُ الْوَدَاع کے موقع پر) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مِنٰی میں خطبہ ارشاد فرمایا تو اللہ پاک نے ہماری سَماعت (یعنی سننے کی طاقت) کو کھول دیا یہاں تک کہ ہم آپ کے فرامین کو اپنی اپنی جگہ پر سنتے رہے۔ ([xiii])
حِجَّۃُ الْوَدَاع کے موقع پر صحابۂ کرام کی تعداد : اے عاشقانِ رسول! حِجَّۃُ الْوَدَاع کے موقع پر سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ حج کی سعادت پانے والے خوش نصیبوں کی تعداد سے متعلق حضرت علّامہ مولانا محمد ہاشم ٹھٹھوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک لاکھ تیس ہزار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا جمِّ غفیر آپ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے ساتھ مکۂ مکرمہ میں داخل ہوا۔ یہ تعداد ان صحابۂ کرام کے علاوہ تھی جو مکۂ مکرمہ میں تھے اور یمن سے حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے تھے۔ ([xiv])
حکمِ نبوی پر عمل کا جذبہ : اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک دفعہ جمعۃُ المبارک کے دن (مسجدِ نبوی شریف کے) منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حاضرین سے ارشاد فرمایا : بیٹھ جاؤ۔ حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن رَواحہ رضی اللہ عنہ اس وقت انصار کے قبیلے بنی غَنم میں موجود تھے۔ انہوں نے وہاں پر یہ ارشاد سنا اور حکمِ نبوی کی تعمیل میں جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے۔ ([xv])
تلاوت کی آواز گھر میں سُن لینا : حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آدھی رات کو خانۂ کعبہ کے پاس قراٰنِ کریم کی تلاوت فرماتے تو میں اپنے گھر کے تخت پر سنتی تھی۔ ([xvi])
حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا کا تلاوت کے مقام سے دور اپنے گھر کے اندرونی حصے میں تخت پر ہونے کے باوجود تلاوت سُن لینا آواز مبارک کی قوت پر دلیل ہے۔ ([xvii])
عورتوں کا گھروں میں خطبہ سُن لینا : سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب خطبہ ارشاد فرماتے تو پردہ نشین عورتیں اپنے گھروں میں خطبہ مبارک سُن لیا کرتی تھیں۔ ([xviii])
دُور نے نزدیک نے آواز یکساں ہی سنی
جب ہوئے بالائے منبر رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن([xix])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments