سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی
شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 1)
* ابوالحسن عطاری مدنی
ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442
اللہ ربّ العزّت نے اپنے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وہ رفیع و عظیم مرتبہ عطا فرمایا کہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا ، (وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴))([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) کا سہرا اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سرِ اَنور پر سجایا اور رہتی دنیا تک کے لئے آپ کے مبارک ذکر کو بلند و بالا فرما دیا ، ہر مقبولِ بارگاہ کو (وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵))([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) سے اپنے حبیب کی محبوبیت کا پیغام دے دیا۔ قراٰنِ کریم میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعریف و توصیف جگہ جگہ مذکور ہے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ قراٰنِ کریم کی ایک ایک آیت رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت کو بیان کرتی ہے ، قراٰنِ کریم کی طرح احادیثِ مبارَکہ میں بھی پیارے مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ رفیع کا بیان ہے اور بہت ہی دلچسپ اور عشّاق کی آتشِ عشق کو گرما دینے والے تو وہ فرامین ہیں جن میں محبوبِ ربّ العزت ، صاحبِ (وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳))([iii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اپنی شانِ اقدس کا بیان اپنی ہی مبارک زبان سے فرماتے ہیں ، ان میں سےچند روایات مع توضیح و لطیف نکات یہاں ذکر کی جاتی ہیں :
محبوبِ کبریا :
(1)اَنَا حَبِيبُ اللَّهِ ، وَلَا فَخْرَ ترجمہ : میں اللہ پاک کا محبوب ہوں اور فخر سے نہیں کہتا۔ ([iv])
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلاشبہ اللہ کریم کے سب سے پیارے اور محبوب نبی ہیں ، آپ اللہ کریم کے کیسے حبیب و محبوب تھے اس کا بیان عظیم عاشقِ رسول ، رئیسُ المتکلمین مفتی نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کے قلم سے ملاحظہ کیجئے : “ (آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک خاصہ ہے) “ محبوبىتِ مطلقہ “ کہ آپ باعتبارِ جملہ صفات و جہات کے ہر زمانہ مىں تمام خلائق بلکہ خود خالق کے محبوب ہىں مثلاً عالِم سے بسبب علم کے اور زاہد سے بسبب زُہد کے اور حَسِىن سے بسبب حُسن کے اور عادِل سے بسبب عدل کے محبت ہوتى ہے اور آپ کے جملہ صفات ظاہرى و باطنى و اختىارى و غىر اختىارى متساوىۃ الاقدام ہىں (یعنی سب اوصاف کامل ہیں ، کسی بھی وصف میں کمی نہیں)۔ حَسِىن سے اس وقت تک محبت رہتی ہے جب تک حُسن باقى ہے ، جب حُسن جاتا رہتا ہے محبت بھى جاتى رہتى ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى ہر صفتِ کمال ، زوال سے منزہ و مبرّا(یعنی قیامت تک قائم رہنے والی بلکہ میدانِ حشر اور جنّت میں مزید بڑھ کر ہو گی) بلکہ یَومًا فَیَومًا (یعنی روز بروز ، دن بدن) ترقى پر ہے : (وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴)) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ([v])- ([vi])
شانِ اسمِ مُحَمَّد :
(2)اَنَا مُحَمَّدٌ ، وَاَنَا اَحْمَدُ ترجمہ : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں۔ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )([vii])
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مبارک و مقدس نام “ مُحَمَّد “ بہت ہی برکتوں اور رحمتوں والا ہے ، آپ کے مبارک نام کے بارے میں کئی احادیثِ کریمہ میں فضائل مروی ہیں ، ایک حدیث میں ہے : جو میری محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کا نام محمد یا احمد رکھے گا اللہ پاک باپ اور بیٹے دونوں کو بخشے گا۔ ([viii])
ایک اور روایت میں ہے کہ قیامت کے دن دو بندے اللہ پاک کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے ، اللہ پاک ان سے فرمائے گا : جنّت میں داخل ہوجاؤ ، وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! ہم نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جو ہمیں جنّت میں لے جائے ، اللہ پاک فرمائے گا کہ میں نے اپنے آپ سے عہد کیا ہے کہ جس کا نام احمد اور محمد ہو وہ دوزخ میں داخل نہ ہو۔ ([ix])
عشّاقِ رسول کے انداز بھی نِرالے ہوتے ہیں ، شیخ عبدُالقادر بن محمد بن نصر حنفی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 775ھ) لکھتے ہیں کہ سمرقند کے ایک علاقے میں ایک قبرستان کا نام “ تُرْبَۃُ الْمُحَمَّدِیْنَ “ ہے ، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مدفون ہر شخص وہ ہے جس کا نام محمد ہے اور یہاں 400سے زائد ایسے عظیم لوگ مدفون ہیں جن کا نام محمد ہے اور وہ سب صاحبِ تصنیف ، فتویٰ اور درس تھے جن سے خلقِ کثیر نے فیض پایا۔ ([x])
شانِ نبوّت :
(3)اَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ ، اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ ترجمہ : میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ ([xi])
لفظ “ نبی “ بھی اپنے ضمن میں بڑے عظیم معانی و اَسرار لئے ہوئے ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنیٰ غیب بتانے والے ، خبریں دینے والے کے ہیں۔ جنگِ حُنَین میں دشمن نے بہت خطرناک حملہ کیا ، لیکن رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کمال شجاعت و بہادری کا مظاہرہ فرمایا ، اس وقت آپ سفید خچر پر سُوار دشمن کے عین سامنے تھے اور زبانِ مبارک پر جاری تھا “ اَنَا النَّبِيُّ لَاكَذِبْ ، اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ “ ۔ ([xii])
رسولِ كريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ ماجد کا نام عبدُاللہ تھا ، یہاں آپ نے خود کو اپنے دادا جان عبدُالمطلب کا بیٹا ارشاد فرمایا ، چونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے والدِ ماجد آپ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے اور اکثر اہلِ عرب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دادا جان کی نسبت سے جانتے تھے اس لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے “ اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ “ فرمایا۔
گھرانا میرے حُضور کا :
(4)اَنَا اَشْرَفُ النَّاسِ حَسَباً وَلَا فَخْرَ ، وَاَكْرمُ النَّاسِ قَدْراً وَلَا فَخْرَ ترجمہ : میں حسب و نسب میں سب لوگوں سے زیادہ عزّت والا ہوں ، مگر فخر نہیں اور میں قدر و منزلت میں سب لوگوں سے زیادہ ہوں ، لیکن فخر نہیں۔ ([xiii])
(5)اَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا ، وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا ترجمہ : میں ہی ان سب میں اچھی ذات والا اور اچھے خاندان والا ہوں۔ ([xiv])
ان دونوں فرامین میں زبانِ اقدس سے عالی و رفیع خاندان مبارک سے ہونے کا بیان ہے ، یہی وصفِ اقدس مزید تفصیل کے ساتھ ایک روایت میں یوں ارشاد فرمایا : اِنَّ اللَّهَ خَلَقَ خَلْقَهٗ فَجَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ الْفِرْقَتَيْنِ ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلًا ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اَنَا خَيْرُكُمْ قَبِيلًا وَخَيْرُكُمْ بَيْتًا یعنی اللہ پاک نے مخلوق کو بنانے کے بعد دو فریق کیا ، مجھے بہتر فریق میں رکھا ، پھر ان کے قبیلے قبیلے جدا کئے ، مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا ، پھر قبیلوں میں خاندان بنائے ، مجھے سب سے بہتر خاندان میں رکھا ، پس میں تم سب سے بہتر قبیلے اور بہتر گھر والا ہوں۔ ([xv])
(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں………اِنْ شَآءَ اللہ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments