ماں باپ کے نام
بچّے اور کھیل
* شاہ زیب عطاری مدنی
ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442
کھیلنا بچّوں کے محبوب مشاغل (Favorite Activities) میں سے ایک ہے۔ کچھ لوگ تو کھیلنے کو معیوب سمجھتے ہیں اور اپنے بچّوں کو اس سے بالکل ہی محروم کر دیتے ہیں جبکہ بعض افراد معلومات کی کمی کی وجہ سے کھیل کو فقط وقت گزاری کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اپنی جان چھڑانے کے لئے بچّوں کو کھیل میں مصروف کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیل کُود ، تفریح اور دیگر جائز مشاغل سے بچّے فرحت اور راحت پاتے ہیں ، ان کے جسم میں توانائی (Energy) آتی ہے اور دِماغ و بدن میں نشاط پیدا ہوتا ہے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز کھیل کھیلنے کا ثبوت قراٰنِ کریم میں بھی موجود ہے۔ حضرت سیّدُنا یعقوب علیہ السَّلام کے بیٹوں نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السَّلام کو ساتھ لے جانے کی وجہ بتاتے ہوئے عرض کی : ( اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَ یَلْعَبْ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(۱۲) ) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تَرجَمۂ کنز ُالایمان : کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ میوے کھائے اور کھیلے اور بےشک ہم اس کے نگہبان ہیں۔ (پ12 ، یوسف : 12)
محترم والدین! دیکھا جائے تو کھیل بچّے کے لئے بہت مُفید ثابت ہوسکتا ہے ، وہ اس سے کافی کچھ سیکھ سکتا ہے ، آئیے! اس حوالے سے چند فائدے پڑھتے ہیں : (1)کھیل کے ذریعے وہ لکھنے پڑھنے کی تھکاوٹ سے آرام حاصل کر سکتا ہے جیساکہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ضروری ہے کہ پڑھنے کے بعد بچّے کو کوئی اچھا کھیل کھیلنے دیا جائے تاکہ وہ کتابوں کی تھکاوٹ سے سکون پاسکے۔ (احیاء العلوم ، 3 / 91) (2)کھیل کے دوران وہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے ، ایسی باتیں آسانی سے یاد کرسکتا ہے جو عام حالات میں یاد کروانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے جیساکہ اسپیلنگ ، مختلف چیزوں کے نام ، رنگوں کی پہچان ، ملتی جلتی چیزوں کے درمیان فرق اور بہت کچھ (3)کھیل کی وجہ سے وہ صحیح اور غلط کا کچھ نہ کچھ مفہوم سمجھنے لگ جاتا ہے ، عدل ، امانت ، خیانت ، جھوٹ ، غصہ کی کیفیت سے آشنا ہونا شروع ہوجاتا ہے (4)کھیلنے سے بچے کے جسم سے پسینہ نکلے گا جو طبّی لحاظ سے فائدہ مند ہے۔
یاد رہے! کتاب کی طرح کھیل کے مُفید ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں ہے ، صحت اور سمجھ میں اضافے کا سبب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، لیکن! جس طرح ہر کتاب پڑھنے کی اجازت نہیں اسی طرح ہر کھیل کھیلنے کی بھی رخصت نہیں ، یہاں پر بھی مفید اور نقصان دِہ ، صحیح غلط ، جائز و ناجائز کا فرق رکھنا ، اس کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ ایک بار حضرت عبدُاللہ بن مُغفَّل رضی اللہ عنہ کا کم عمر بھتیجا كنكر پھینک رہا تھا ، انہوں نے دیکھ کر منع کرتے ہوئے کہا کہ حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس سے فائدہ کچھ نہیں نہ شکا ر ہوسکتا ہے نہ دشمن کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے اور اتفاقاً کسی کو لگ جائے تو آنکھ پھوٹ سکتی ہے ، دانت ٹوٹ سکتا ہے۔ (ابن ماجہ ، 1 / 19 ، حدیث : 17ماخوذاً)
والدین کی یہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے بچّوں کے لئے کھیل کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ اس سے شریعت میں ممانعت تو نہیں ، اس سےکوئی نقصان تو نہیں ہوگا ، بچّے پر اس کھیل کے کیا اثرات پڑیں گے ، اس سے وہ کیا سیکھے گا ، اس کے ذہنی و جسمانی کیا فائدےہیں؟
اللہ پاک ہمیں اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت کا درست انداز سے اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* ماہنامہ فیضانِ مدینہ ، کراچی
Comments