امیرِاہلِ سنّت کاشوقِ علم دین

*   ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

امیرِ اہل سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری صاحب کی ولادت 26رمضان 1369ھ / 12جولائی 1950ء کو اولڈ کراچی کے ایک میمن گھرانے میں ہوئی ، جب آپ کی عمر ایک سال اور چند ماہ تھی تو آپ کے والد حاجی عبدالرحمٰن قادری حج کے لئے روانہ ہوئے ، بعدِ حج ان کا مکۂ مکرمہ میں 14ذوالحجہ1370ھ کو انتقال ہوگیا ، آپ نے مڈل تک تعلیم ایک گجراتی اسکول میں حاصل کی اور ابتدائی اسلامی علوم مثلاً تجوید و قرأت ، ابتدائی عربی گرامر ، عقائد و مسائل اپنے علاقے کھارادر کے علما سے حاصل کئے ، گھریلو مسائل و غربت کی وجہ سے آپ بچپن سے ہی مختلف کام کاج اور تجارت میں مصروف ہوگئے مگر علمِ دین حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مطالعۂ کُتب اور صحبتِ علما آپ کے روزانہ کے معمولات کا حصہ رہا۔ آپ نے سب سے زیادہ اِستفادہ مفتیِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مفتی محمد وقارُالدّین قادِری رَضَوی  رحمۃ اللہ علیہ  سے کیا اور مسلسل22 سال آپ مفتیِ اعظم پاکستان کی صحبتِ بابَرَکت سے مستفیض ہوتے رہے۔ (وقارالفتاویٰ ، 2 / 202) حتّٰی کہ مفتی محمد وقارُ الدّین قادِری  رحمۃ اللہ علیہ  نے رَجَب 1404ھ مطابق اپریل 1984ء کو آپ کو اپنے گھر سمن آباد گلبرگ ٹاؤن کراچی میں اپنی خلافت و اجازت سے بھی نوازا۔

ان کے علاوہ امیرِ اہلِ سنّت کو کئی اکابر علما و مشائخ سے خلافتیں اور اجازات حاصل ہوئیں مثلاً شارِحِ بخاری ، فقیہِ اعظم ہند ، مفتی شریفُ الحق امجدی ، خلیفۂ قطبِ مدینہ حضرت مولانا عبدُالسلام قادری رضوی اور جانشینِ قطبِ مدینہ حضرت مولانا حافظ فضلُ الرّحمٰن مدنی قادری رحمۃ اللہ علیہم وغیرھم۔ حال ہی میں خاندانِ غوثیہ (شام) کے چشم و چراغ ، رئیس علمائے عرب ، مصنف کُتبِ تصوف فضیلۃ الشیخ حضرت علّامہ ڈاکٹر سیّد عبدالعزیز الخطیب حسینی دمشقی حَفِظَہُ اللہ نے سندِ بخاری سمیت کئی اسناد اور علوم کی اجازت عطا فرمائی۔ (مجموع رسائل الشیخ الیاس العطار ، مقدمہ)

سفر کے علاوہ آپ کا اچھا خاصا وقت مطالعہ و تحریری کاموں میں صَرف (استعمال) ہوتا ہے ، شوقِ مطالعہ ، غور و تفکر اور جیّد عُلمائے کِرام کی صحبت کی برکت سے امیرِ اہلِ سنّت  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کو مسائلِ شَرِیعہ کی کافی معلومات ہیں۔ آپ کی تَحریر کردہ کُتُب مثلاً فیضانِ سنّت (جلد اوّل) ، نماز کے احکام ، اسلامی بہنوں کی نماز ، چندے کے بارے میں سوال جواب ، رفیقُ الحَرَمین ، رفیقُ المُعْتَمِرین نیز کُفریہ کلمات اور پردہ وغیرہ کے موضوعات پر آپ کی تالیفات ، تَفَقُّہ فِی الدِّین میں آپ کے اعلیٰ مقام کا پتا دیتی ہیں۔ نعتیہ دیوان وسائلِ بخشش سمیت اب تک آپ 117سے زائد کُتب و رسائل لکھ چکے ہیں۔ فقیہ اعظم ہند ، استاذُالعلماء ، شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریفُ الحق امجدی  رحمۃ اللہ علیہ  (الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور ہند) تحریر فرماتے ہیں : مولانا محمد الیاس قادری دعوتِ اسلامی کے بانی زِیْدَ مَجْدُہُم انتہائی ذہین ، فطین ، قوی الحافظہ انسان ہیں اور مطالعہ کے بےحد شوقین وسیع المطالعہ بزرگ ہیں ، عقائد و احکام کے جزئیات اتنے زیادہ ان کو یاد ہیں کہ آج کل کے درسِ نظامیہ کے فارغ التحصیل اور بہت سے مشہور علماء کو اس کا عشرِ عشیر بھی محفوظ نہیں ، صحیحُ العقیدہ سنی ، پابندِ شرع ، مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرّہ کے مسلک کے پابند ، انتہائی متقی اور پرہیزگار انسان ہیں ، انہیں سب وجوہ کی بنا پر اللہ  عَزَّوَجَلَّ  نے ان کی زبان میں تاثیر دی ہے اور ان کے کام میں برکت عطا فرمائی ہے ، ہزاروں بَدمذہب ان کی وجہ سے صحیحُ العقیدہ سنی ہوئے ، لاکھوں لاکھ افراد شریعت کے پابند بنے ، جس کی نظیر اس وقت کسی بھی عالم یا پیر کے تلامذہ یا مریدین میں نہیں ، پگڑی باندھنا سنّت ہے ، علما تک نے چھوڑ دیا ہے ، پیر صاحبان نے چھوڑ دیا ہے ان کی تبلیغ سے لاکھوں افراد ہَرا عمامہ باندھنے لگے ہیں ، داڑھی منڈانے اور کتروانے کا رَواج عام ہے بڑے بڑے پیر صاحبان کے خصوصی مریدین داڑھیاں منڈاتے ہیں ، پیر صاحب ان سے داڑھی نہیں رکھوا سکتے انہوں نے لاکھوں گریجویٹ اور لکھ پتیوں کے بچّوں کو داڑھیاں رکھوادیں۔ (فتاویٰ شارح بخاری ، 3 / 479ملتقطا)

استاذُالعلماء ، جامع معقول و منقول حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد اشفاق احمد رضوی  رحمۃ اللہ علیہ  (مدرسہ غوثیہ جامع العلوم خانیوال ، پنجاب) لکھتے ہیں : آپ (یعنی امیرِاہلِ سنّت) نے ذِمّہ داری کا کمال اِحساس فرماتے ہوئے کثرتِ مطالعہ ، بحث و تمحیص اور اکابر علمائے کرام سے تحقیق و تدقیق کے ذریعہ سے مسائلِ شرعیہ پر عُبُور حاصل کر لیا ہے۔ امامِ اہلِ سنّت ، اعلیٰ حضرت  علیہِ الرَّحمۃ  کی کُتب کا مطالعہ ، اعلیٰ حضرت ، عظیمُ البرکت کے علمی فیضان کا ذریعہ ہے۔ ان کے مسلک پر تَصَلُّب (یعنی مضبوطی) ، شریعتِ مطہرہ کی پابندی ، رُوحانی عُرُوج کا سبب ہے۔ حج و عمرہ کے مسائل پر آپ کی تحریر کردہ کتاب رَفِیْقُ الْحَرَمَین اور رَفیِقُ الْمُعْتَمِرِین فقہ میں آپ کی تحقیق و تدقیق کی غماز ہیں ، اصلاح و تربیت کے لئے قولِ حسن اور مثالی صلاحیت پر فیضانِ سنَّت شاھدِ عدل ہے ، علمِ دین سے غایت دَرَجہ کا شغف ، باعمل علمائے کرام کے احترام اور مدارسِ دینیہ سے لگاؤ کا مُوجِب ہے۔ (تذکرہ امیرِاہلِ سنّت ، قسط4 ، ص25 ، 37ملتقطاً) اللہ پاک ہمیں بھی شوقِ علم نصیب فرمائے ، مطالعۂ کُتب ، صحبتِ عُلَما اور امیرِاہلِ سنّت کے فیوض و برکات سے حصّہ عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   رکنِ شوریٰ و نگران مجلس المدینۃالعلمیہ ، کراچی

 


Share