یہ شرک کیوں نہیں؟ (قسط:04)

اسلامی عقائد و معلومات

یہ شرک کیوں نہیں؟(قسط : 04)

* عدنان چشتی عطاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

قراٰنِ پاک میں اللہ کریم نے کثیر مقامات پر جو لفظ اپنے لئے صِفت کے طور پر استعمال فرمایا ہے بالکل وہی لفظ اپنے انبیائے کرام یا اولیائے عِظام یا صدیقین و صالحین بلکہ عام انسانوں کے لئے بھی ذِکْر فرمایا ہے جیسا کہ اللہ  پاک نے ایک مقام پر اپنی دو صِفات “ رَءُوْف اور رَحِیم “  کا ذِکْر فرمایا ہے اور قراٰنِ مجید میں ہی  دوسرے مقام پر ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو “ رَءُوْف اور رَحِیم فرمایا۔

اللہ بھی سَمِیع و بَصِیر اور بندے بھی : اللہ پاک اپنی دو صفات یوں ذِکْر فرماتا ہے : (اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ ([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) جبکہ یہی دو صفات “ سَمِیع و بَصِیر “ انسان کے متعلق بھی ذکر فرمائی ہیں جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے : ( فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۲)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : تو اُسے سنتا دیکھتا کردیا۔ ([ii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) ان دونوں آیات سے ایک بات خوب واضح ہے کہ اللہ پاک سمیع اور بصیر ہے اور انسان کو بھی سمیع اور بصیر کہا گیا ہے۔ اللہ اور رسول دونوں کے لئے لفظِ “ شہید “ کا استعمال : اللہ پاک اپنی ایک صِفت یوں بیان فرماتا ہے : ( اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(۱۷))([iii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اللہ پاک کی ایک صِفت شہید ہے جبکہ یہی صفت اپنے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں یوں ارشاد فرمائی : (فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔ ([iv])(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اللہ بھی مولیٰ اور جِبریل  بھی مولیٰ : قراٰنِ پاک میں ہے اللہ مسلمانوں کا مولیٰ ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے : (ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مولیٰ اللہ ہے۔ ([v]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسرے مقام پر اللہ کریم فرماتا ہے :

(فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : تو بےشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔ ([vi]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اسی طرح قراٰنِ کریم فرماتا ہے : ( اَنْتَ مَوْلٰىنَا) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : تو ہمارا مولیٰ ہے۔ ([vii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یعنی مؤمنین کا طریقہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں : (اَنْتَ مَوْلٰىنَا) یعنی تو ہمارا مولیٰ ہے۔ جبکہ مسلمانوں میں یہ بات رائج ہے کہ علمائے کرام کو دن رات “ مولانا مولانا “ کہہ کر بلاتے ہیں۔ کبھی کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ مولیٰ تو صرف اللہ ہے عالمِ دین کو مولانا کہا تو شِرک ہوجائے گا۔ اسی طرح بچّہ بچّہ جانتا ہے کہ  امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ مؤمنوں کے مولیٰ ہیں۔ حضرت سیّدُنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کو “ صدیقِ اکبر “ کہا جاتا ہے جبکہ اللہ کا اَکْبَر ہونا کسے معلوم نہیں۔ نماز کی ابتدا ہی اَللہُ اَکْبَر سے ہوتی ہے۔ حضرت سیّدُنا عثمان  رضی اللہ عنہ کو “ غنی “ کہا جاتا ہے جبکہ قراٰنِ پاک میں “ غنی “ اللہ پاک کی صفت بیان کی گئی ہے : ( اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(۲۶))تَرجَمۂ کنزُ الایمان : بے شک اللہ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا۔ ([viii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یہ سب مسلمانوں میں رائج ہیں لیکن کوئی بھی مسلمان اس لفظی اِشْتِراک کو کُفر یا شِرک نہیں سمجھتا کیونکہ یہ شِرک ہے ہی نہیں۔ عِزَّت اللہ کے لئے اور رسول و مؤمنین کے لئے بھی : اللہ پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے : ( اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّٰهِ جَمِیْعًاؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : بے شک عزت ساری اللہ کے لیے ہے۔ ([ix]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت سے پتا چلتا ہے کہ ساری عزت صرف اللہ پاک کے لئے ہے۔ جبکہ دوسری آیتِ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے : ( وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۸)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔ ([x]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اللہ بھی حلیم حضرت ابراہیم و اسماعیل بھی حلیم : “ حلیم “ اللہ پاک کی صفت ہے جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے : (وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(۲۲۵)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور اللہ بخشنے والا حلم والا ہے۔ ([xi]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) یہی حلیم ہونے کی صِفت اللہ پاک نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السَّلام کے لئے بھی بیان فرمائی ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے : (اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ )([xii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اور حضرت اسماعیل علیہ السَّلام کے لئے فرمایا : ( فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱))([xiii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اولاد عطا فرمانے والا کون؟ سب جانتے ہیں اولاد اللہ پاک عطا فرماتا ہے جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے : ( یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے۔ ([xiv]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) قراٰنِ پاک میں ایک دوسرے مقام پر بیٹا عطا کرنے کی نسبت حضرت سیّدنا جبریلِ امین اپنی جانب فرما رہے ہیں جیسا کہ : (قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(۱۹)) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں۔ ([xv]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) موت دینے والا کون؟ چھوٹے بڑے سبھی جانتے ہیں کہ “ موت و حیات “ کس کے قبضے میں ہیں ، مارتا کون ہے ، زندہ کون کرتا ہے؟ اللہ پاک۔ جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے : (اَللّٰهُ یَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِهَا) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت۔ ([xvi]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسرے مقام پر مارنے کی نسبت فرشتے کی طرف کی گئی ہے جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : (قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ) تَرجَمۂ کنزُ الایمان : تم فرماؤ تمہیں وفات دیتا ہے موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر ہے۔ ([xvii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) الغرض مثال کے طور پر پیش کی گئی چند آیات کے علاوہ درجنوں ایسی آیات ہیں کہ جن میں جس لفظ کے ذریعے اللہ پاک کی صِفت بیان کی گئی ہے بالکل وہی لفظ انبیائے کرام یا اولیائے عظام یا صالحین اور متقین کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ کبھی بھی کسی مسلمان کو یہ شک نہیں گزرا کہ اس سے شِرک لازم آ گیا۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ بظاہر ایک لفظ اللہ کریم کے لئے بولا گیا ہے وہی نبیِّ پاک   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یا کسی دوسرے انسان کے لئے بھی بولا گیا ہے لیکن معنیٰ اور مَفہوم کے اعتبار سے دونوں میں بےشمار فرق ہیں ، جیسے اللہ پاک غیب جانتا ہے ، نبیِّ پاک بھی غیب جانتے ہیں۔ اللہ پاک مدد گار ہے ، نبی ، ولی بھی مددگار ہیں ، نبیِّ پاک   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے مُختارِ کُل ہیں ، نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مالکِ جنّت ہیں ، اللہ پاک کے خزانوں کے مالک ہیں ، ان تمام کو ماننے سے کوئی شِرک لازم نہیں آتا کیونکہ اللہ پاک کی صِفات اور مخلوق کی صفات میں بے شمار فرق ہیں چند  یہاں  ذِکْر کئے گئے ہیں :

اللہ پاک کی صِفات      مخلوق کی صِفات

ذاتی ہیں عطائی ہیں

قدیم ہیں حادِث ہیں

نہ ابتدا ہے نہ انتہا ابتدا و انتہا دونوں ہیں

لَامحدود(Limitless)ہیں محدود(Limited)  ہیں

گھٹتی بڑھتی نہیں گھٹتی بڑھتی ہیں

کسی کی محتاج نہیں اللہ کی محتاج ہیں

صِفات کو فَنا نہیں فَانی ہیں

پیارے اسلامی بھائیو! اس قدر فرق پائے جانے کے بعد بھی بھلا شِرک ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں ، یقیناً نہیں ، کیا یہ ایک فرق ہی کافی نہیں کہ اللہ پاک خالق ہے جبکہ نبی ، ولی ، صالحین سب مخلوق ہیں۔ خالق و مخلوق میں برابری کیسی؟ اس لئے ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ الفاظ کی ظاہری یکسانیت ، برابری یا مُماثَلَت سے ہرگز ہرگز شِرک نہیں ہوتا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* رکنِ مجلس المدینۃالعلمیہ کراچی



([i])پ15 ، بنی اسرآئیل : 1

([ii])پ29 ، الدھر : 2

([iii])پ17 ، الحج : 17

([iv])پ5 ، النسآء : 41

([v])پ26 ، محمد : 11

([vi])پ28 ، التحریم : 4

([vii])پ3 ، البقرۃ : 286

([viii])پ21 ، لقمٰن : 26

([ix])پ11 ، یونس : 65

([x])پ28 ، المنٰفقون : 8

([xi])پ2 ، البقرۃ : 225

([xii])پ11 ، ھود : 75

([xiii])پ23 ، الصٰفٰت : 101

([xiv])پ25 ، الشورٰی : 49 ، 50

([xv])پ16 ، مریم : 19

([xvi])پ24 ، الزمر : 42

([xvii]21 ، السجدۃ : 11


Share

Articles

Comments


Security Code