بزرگانِ دین کے مبارک فرامین
علامہ مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی نصیحتیں
*مولانا ابو اسماعیل عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے والدِ محترم رئیسُ المتکلمین حضرت علّامہ مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت 1246ھ جُمادَی الاُخریٰ کی آخِری یا رَجَبُ المُرَجَّب کی پہلی تاریخ کو بریلی شریف میں ہوئی۔آپ نے ساری تعلیم اپنے والدِ ماجد مولانا رضا علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ سے حاصل کی جو اپنے زمانے کے زبردست عالمِ دین تھے۔ 5جُمادَی الاُولیٰ1294ھ کو اپنے صاحبزادے (اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ) کے ساتھ مارہرہ مطہّرہ حاضر ہوئے اور خاتمُ الاکابر سیّدنا شاہ آلِ رسول رحمۃُ اللہِ علیہ سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ مرشِدِ گرامی نے اُسی مجلس میں باپ اور بیٹے دونوں کو تمام سَلاسِل کی خلافت بھی عطا فرما دی۔([1])رئیسُ المتکلمین کا وصال ذوالقعدۃ الحرام 1297ھ مطابق 1880ء بروز جمعرات 51برس، 5ماہ کی عمر میں ہوا اور اپنے والد ماجد کے پہلو میں دَفْن ہوئے۔([2])
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے سیرت، عقائد، اعمال اور تصوّف وغیرہ کے موضوع پر شاندار کُتُب تحریر فرمائیں۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی کتابوں میں جابجا نصیحتیں فرمائی ہیں،ان میں سے 8نصیحتیں درج ذیل ہیں۔
دعاکے متعلق آپ ارشادفرماتے ہیں:
(1)اے عزیز!اگر دعا قبول نہ ہو، تو تجھے چاہئے کہ اُسے اپنا قصور سمجھے، خدائے تعالیٰ کی شکایت نہ کرے کہ اس کی عطا میں نقصان نہیں، تیری دعا میں نقصان ہے (یعنی اس مولیٰ کریم عزّوَجل کی عطا میں کوئی کمی نہیں، کمی تو تیرے دعا کرنے میں ہے)۔ ([3])
(2)اے عزیز! وہ کریم و رحیم ہے، بے مانگے کروڑوں نعمتیں تیرے حوصلہ ولیاقت سے زیادہ تجھے عطا کرتا ہے۔اگر تو اس سے مانگے گا کیا کچھ نہ پائے گا۔([4])
فکرِ آخرت دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
(3)اے نفس! جوانی میں بڑھاپے سے پہلے اور بڑھاپے میں مرنے سے آگے عبادت نہیں کرتا اور جاڑے سے سامان ِ گرمی اور گرمی سے سامان جاڑے کا درست کرتا ہے کیا دوزخ کی زمہریر کو اس سردی اور اس کی آگ کو اس گرمی سے بھی کم جانتا ہے؟([5])
دین اور علمائے دین سے دور مال داروں کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(4)تم نے تو دنیا کی ناز و نعمت کو بہشت اور اِس کی رنج و مصیبت کو دوزخ سمجھ لیا کہ ہروقت اسی کی فکر میں رہتے ہو۔ کبھی وعظ کی مجلس یا عالم کی خدمت میں نہیں جاتے بلکہ اس قسم کی باتوں سے گھبراتے ہو اور کسی کی خاطر سے کوئی بات سن لیتے ہو تو اس پر عمل نہیں کرتے،افسانۂ بیہودہ سمجھتے ہو، باوجود اس کے ایمان کا دعویٰ کیے جاتے ہو۔([6])
گناہوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(5)افسوس انسان کے حال پر کہ اگر ہر گناہ پر ایک کنکر کسی مکان میں ڈالے تو تھوڑے عرصہ میں مکان بھرجائے اور جو کراماً کاتبین لکھنے پر اُجرت لیں تمام مال و اسباب اُن کی اجرت کو کفایت نہ کرےباوجود اس کے کبھی خیال نہیں کرتاکہ میں نے کیا کیااور انجام اس کا کیاہے۔ہاں اگر سو دفعہ ”سبحان اللہ“ پڑھے تو تسبیح پر شمار کرے اور تمام دن بے ہودہ باتیں بکے اُسے ایک مرتبہ بھی نہ گِنےاور پھر اس غفلت ونادانی پر اُمید رکھتا ہے کہ پلّہ نیکیوں کا بھاری ہو۔([7])
(6)کیا لطف کی بات ہے کہ تو خدا کی قدرت پر بھروسا کرکے زہر نہیں کھاتا اور اس کے رحمت پر بھروسا کرکے زنا کرتا ہے اور شراب پیتا ہے اور نماز ترک کرتا ہے کہ مضرت اُس کی زہر کی مضرت سے بہت زیادہ ہے بلکہ درحقیقت تیرایہ دعویٰ کہ میں خدا کی رحمت پر بھروسا کرتا ہوں اور اس سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں، ”عذر بدتر ازگناہ ہے۔“([8])
نماز کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
(7)اے عزیز!تیری نادانی اور کم ہمتی پر کمال افسوس ہے کہ ہزار طرح کی محنت ومشقت دنیاء فانی کے واسطے اختیار کرتا ہے اور دو رکعت نماز سے کہ دونوں جہان کی دولت و عزت اُس سے حاصل ہوتی ہے دل چراتاہے۔([9])
حضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(8)ہر گز ہر گز یہ خطرہ دل میں نہ لاناکہ میری بات یہاں کیا سنی جائےگی یا میں کس قابل ہوں کہ جو ایسی بارگاہ میں عرض حال کروں، وائے نادانی اگر ایسا خیال کیا تو تیرا حال کس قدر مشابہ ہے اس مریض نادان سے جو طبیب کے یہاں جائے اور مایوسی ظاہر کرے کہ میں تو بیمار ہوں طبیب میرے حال پر کیا التفات کرے گا، اے بےخبرو! طبیب تو اسی لئے ہے کہ بیماروں کی دلجوئی وچارہ سازی کرے پھر یہ بیجا ہِراس (ناامیدی) اور بعلت علالت اس کی توجہ و عنایت سے یاس محرومی و بدبختی نہیں توکیا ہے عیاذاً باللہ منہ۔([10])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“کراچی
Comments