قراٰنی تعلیمات
قراٰنِ کریم کی دعوتِ فکر و تدبر ( قسط: 01)
*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
قراٰنِ کریم ایک عظیم کتابِ ہدایت ہے جو ہر طرح کے شک و شبہ، اعتراض، کجی، کمی، نقص سے پاک ہے۔ اس کے دعوے، اس کے چیلنجز، اس کی خبریں، اس کی اثر انگیزی اِس کے نزول کے اوّل دن سے آج تک قائم ہیں۔
قراٰنِ کریم کے تربیت و تعلیم کے اسالیب میں سے ایک بہت اہم اسلوب تفکر و تدبر کی دعوت ہے۔
یہ دعوت کہیں (لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ) کے الفاظ سے ہے تو کہیں (لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ) کے الفاظ سے ہے، کہیں (لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ) کے ذریعے دعوتِ تفکر دی گئی ہے تو کہیں (لِیَدَّبَّرُوْۤا) فرمایا ہے۔ یونہی کئی مقامات پر نزولِ قراٰن کا مقصد ہی ”غور و فکر اور تدبر“ ارشاد فرمایا ہے۔
قراٰنِ کریم نے قدرتِ باری تعالیٰ، زمین و آسمان کی تخلیق، کائنات کے مختلف مظاہر، بارش، کھیتی، تخلیقِ انسان، تخلیقِ جبال، قراٰنِ پاک، آیاتِ الٰہیہ اور دیگر کئی چیزوں میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ آئیے! ذیل میں تفکر و تدبر کی اس دعوت کے چند پہلو ملاحظہ کرتے ہیں:
قراٰنِ کریم عربی میں نازل فرمانے کی حکمت
قراٰنِ کریم عرب خطے میں نازل ہوا، یوں اس کے اولین مخاطب اہلِ عرب اور بالعموم ساری دنیا اس کی مخاطب ہے۔ اولین مخاطبین کے لحاظ سے قراٰنِ کریم کے عربی میں نازل ہونے کی ایک حکمت یہ ارشاد فرمائی گئی کہ تم اسے سمجھو اور عقل سے کام لو چنانچہ
پارہ12میں فرمایا:
(اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲))
ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے اسے عربی قراٰن اتارا کہ تم سمجھو۔([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر صِراطُ الجنان میں ہے: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قراٰنِ کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا کیونکہ عربی زبان سب زبانوں سے زیادہ فصیح ہے اور جنت میں جنتیوں کی زبان بھی عربی ہو گی اوراسے عربی میں نازل کرنے کی ایک حکمت یہ ہے کہ تم اس کے معنی سمجھ کر ان میں غوروفکر کرو اور یہ بھی جان لو کہ قراٰن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔([2])
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قراٰنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غورو فکر کریں اور اسے سمجھنے کیلئے عربی زبان پر عبور ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ کلام عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لئے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں یا جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہئے کہ اہلِ حق کے مُسْتَنَد علما کے تراجم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں تاکہ وہ قراٰنِ مجید کو سمجھ سکیں۔ افسوس! فِی زمانہ مسلمانوں کی کثیر تعداد قراٰنِ مجید کو سمجھنے اور اس میں غور وفکر کرنے سے بہت دور ہو چکی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے۔ عربی کا سیکھنا بحیثیت ِ مجموعی اُمتِ مُسلمہ کے لئے فرضِ کفایہ ہے۔
اسی طرح دیگر کئی آیات میں قراٰنِ کریم کے عربی میں نزول کی حکمت ”اِسے سمجھنا اور غوروفکر کرنا“ فرمایا گیا چنانچہ
پارہ16میں فرمایا:
(وَكَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّفْنَا فِیْهِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا(۱۱۳))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یونہی ہم نے اُسے عربی قراٰن اتارا اور اس میں طرح طرح سے عذاب کے وعدے دئیے کہ کہیں انہیں ڈر ہو یا ان کے دل میں کچھ سوچ پیدا کرے۔([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
صِراطُ الجنان میں ہے کہ اس آیت میں قراٰن مجید کی دو صفات بیان کی گئیں: (1)قراٰن کریم کو عربی زبان میں نازل کیا گیا، تاکہ اہلِ عرب اسے سمجھ سکیں اور وہ اس بات سے واقف ہوجائیں کہ قراٰن پاک کی نظم عاجز کر دینے والی ہے اور یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ (2)قراٰن مجیدمیں مختلف انداز سے فرائض چھوڑنے اور ممنوعات کا اِرتکاب کرنے پر عذاب کی وَعِیدیں بیان کی گئیں تاکہ لوگ ڈریں اور قراٰن عظیم ان کے دل میں کچھ نصیحت اور غوروفکر پیدا کرے جس سے انہیں نیکیوں کی رغبت اور بدیوں سے نفرت ہو اور وہ عبرت و نصیحت حاصل کریں۔([4])
پارہ23میں فرمایا:
(قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۲۸))
ترجَمۂ کنزُالایمان: عربی زبان کا قراٰن جس میں اصلاً کجی نہیں کہ کہیں وہ ڈریں۔([5])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یعنی قراٰنِ کریم کو ایسا فصیح اتارا کہ جس نے فصحاء وبلغاء کو عاجز کردیا اور یہ تناقص و اختلاف سے پاک ہے پس یہ لوگ اس میں غور کریں اور کفر وتکذیب سے باز آئیں۔([6])
پارہ24 میں فرمایا:
(كِتٰبٌ فُصِّلَتْ اٰیٰتُهٗ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَۙ(۳))
ترجَمۂ کنزُالایمان: ایک کتاب ہے جس کی آیتیں مفصل فرمائی گئیں عربی قراٰن عقل والوں کے لیے۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت میں قراٰنِ کریم کے پانچ اَوصاف بیان کئے گئے ہیں جو سب کے سب غوروفکر سے تعلق رکھتے ہیں چنانچہ
(1)یہ کلام ایک کتاب ہے۔کتاب اسے کہتے ہیں جو کئی مضامین کی جامع ہو اور قراٰنِ کریم چونکہ اَوّلین و آخرین کے علوم کا جامع ہے ا س لئے اسے کتاب فرمایا گیا۔
(2)اس کلام کی آیتیں تفصیل سے بیان کی گئیں ہیں۔ یعنی قراٰنِ پاک کی آیتیں مختلف اَقسام کی ہیں جن میں احکام، مثالوں، وعظ و نصیحت، و عدہ اور وعید وغیرہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
(3)یہ کلام قراٰن ہے۔یہ ایسا کلام ہے جسے دنیا میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے اور اس کی آیتیں باہم مَربوط اور ملی ہوئی ہیں، نیز یہ بندوں کو خدا سے ملا دیتا ہے۔
(4)اس کلام کی زبان عربی ہے۔ اس سے معلوم ہو اکہ عربی زبان بہت فضیلت اور اہمیت کی حامل ہے اور یہ بھی معلوم ہو اکہ قراٰنِ مجید کا ترجمہ قراٰن نہیں لہٰذا نماز میں ترجمہ پڑھ لینے سے نماز نہ ہو گی۔
(5)قراٰنِ مجید کا عربی میں ہونا ان لوگوں کے لئے ہے جن کی زبان عربی ہے تاکہ وہ اس کے معانی کو سمجھ سکیں۔ ایک تفسیر کے اعتبار سے اس آیت میں قراٰنِ مجید کی پانچویں صفت یہ ہے کہ اس کی آیتیں عرب والوں کیلئے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔اہلِ عرب کا بطورِ خاص ا س لئے ذکر کیا گیا کہ وہ ہم زبان ہونے کی وجہ سے اس کے معانی کو کسی واسطے کے بغیر سمجھ سکتے ہیں جبکہ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کو قراٰن کریم کے معانی سمجھنے کے لئے واسطے کی حاجت ہے۔([8])
اسی طرح پارہ25میں فرمایا:
(اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَۚ(۳))
ترجمہ کنزالایمان:ہم نے اُسے عربی قراٰن اُتارا کہ تم سمجھو۔([9])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور پارہ26میں فرمایا:
(وَهٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاﳓوَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۲))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور یہ کتاب ہے تصدیق فرماتی عربی زبان میں کہ ظالموں کو ڈر سنائے اور نیکوں کو بشارت۔([10])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں۔۔۔)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments