تفسیر قراٰن کریم
قدموں کے نشانات
*مفتی محمد قاسم عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْۣؕ(۱۲))
ترجَمۂ کنزُالعِرفان:بیشک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے اور ہم لکھ رہے ہیں جو (عمل) انہوں نے آگے بھیجا اور ان کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات کو۔(پ22،یٰسٓ:12)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
تفسیر:آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ بیشک قیامت کے دن ہم اپنی کامل قدرت سے مُردوں کو زندہ کریں گے اوردنیا میں انہوں نے جواچھے یا برے اعمال کئے وہ ہم لکھ رہے ہیں تاکہ ان کے مطابق انہیں جز ادی جائے اور ہم ان کی وہ نشانیاں اور وہ طریقے بھی لکھ رہے ہیں جو وہ اپنے بعد چھوڑ گئے خواہ وہ طریقے نیک ہوں یا برے۔(تفسیرکبیر، یٰسٓ، تحت الآیۃ: 12، 9/258،257)
آیت کےذکر کردہ حصے میں مجموعی طور پرتین باتیں بیان فرمائی گئی ہیں: (1)اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى ترجمہ: بیشک ہم مُردوں کو زندہ کریں گے۔ (2)وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا ترجمہ: اور ہم لکھ رہے ہیں جو (عمل) انہوں نے آگے بھیجا۔ (3)وَاٰثَارَهُمْ ترجمہ: (ہم لکھ رہے ہیں) ان کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات کو۔
آیت کے پہلے حصے میں عقیدۂ قیامت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو زندہ فرمائے گا جس میں لوگوں کے اعمال کا حساب ہوگا اور وہ اعمال ابھی سے لکھے جارہے ہیں جیسا کہ آیت کے اگلے حصے میں بیان فرمایا۔
آیت کے دوسرے حصے میں اعمال کا لکھا جانا مذکور ہے، فرمایا: وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا اور ہم لکھ رہے ہیں جو (عمل) انہوں نے آگے بھیجا۔ اس سے مراد وہ اعمال ہیں جو انسان خود کرتا ہے جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تلاوت، ذکر، درود وغیرہا۔
آیت کے تیسرے حصے میں مزید چیزوں کے لکھے جانے کا بیان ہے، فرمایا: وَاٰثَارَهُمْ (ہم لکھ رہے ہیں) ان کے پیچھے چھوڑے ہوئے نشانات کو۔ آثار یعنی نشانات کی چار تفسیریں ہیں:
ایک تفسیر یہ ہے کہ لوگ دین سے تعلق رکھنے والے جو نئے طریقے ایجاد کرکے اپنے پیچھے چھوڑ گئے وہ لکھے جارہے ہیں۔ یہ طریقے اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی،دونوں کا حکم جدا جدا ہے۔ اچھے نئے دینی طریقے کو ’’بدعت ِحَسَنہ‘‘ کہتے ہیں جیسے قرآن مجید کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنا، مسجدوں کی زیب و زینت کرنا، محراب و مینار بنانا، صرف و نحو وغیرہ علوم ایجاد کرنا، ایصالِ ثواب کی مختلف صورتیں مثلاً سوئم، چالیسواں، برسی جاری کرنا، سیرت و میلاد کے جلسے اور محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اظہار کے نئے انداز شروع کرنا جیسے محفل و جلوسِ میلاد وغیرہ۔ ان نئے طریقوں کے بنانے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں دونوں کو ثواب ملتا ہے۔
اس کے مقابلے میں دین کے نام پر برے طریقے بنانا ہے جنہیں بدعت ِسَیِّئہ یعنی بری بدعت کہتے ہیں، اس طریقے کو شروع کرنے والے اور عمل کرنے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں۔ ان دونوں طریقوں کے متعلق سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت وضاحت سے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے اسلام میں نیک طریقہ جاری کیا، اسے طریقہ جاری کرنے کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گااور عمل کرنے والوں کے اپنے ثواب میں کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ جاری کیا تو اس پر وہ طریقہ جاری کرنے کا بھی گناہ ہو گااور اس طریقے پر عمل کرنے والوں کا بھی گناہ ہوگا اور ان عمل کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔“ (مسلم، ص394، حدیث:1017)
نامہ اعمال میں لکھے جانے والے آثار یعنی نشانات کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ انسان کے وہ اچھے برے اعمال جو بدعت میں داخل نہیں لیکن دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی جاری رہتے ہیں۔ جیسے اچھے اعمال کی یہ مثالیں کہ (1)کوئی شخص دین کا علم پڑھاتا ہے،پھر ا س کے شاگرد اپنے استاد کی وفات کے بعد بھی ا س علم کی اشاعت کرتے رہتے ہیں۔ (2)کوئی شخص دینی مدرسہ بنا دیتا ہے اور بانی کی وفات کے بعد بھی طلباء دین کا علم حاصل کرتے رہتے ہیں۔ (3)کوئی انسان کسی دینی موضوع پر کتاب تصنیف کرتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد بھی اس کتاب کی اشاعت ہوتی رہتی ہے۔ (4)کوئی شخص مسجد بنادیتا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ نمازیں پڑھتے رہتے ہیں۔ (5)کوئی شخص کنواں کھدوا کر یا بورنگ کروا کر لوگوں کے لئے پانی کا انتظام کر دیتا ہے اور لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی پانی حاصل کرتے رہتے ہیں۔
اور بُرے اعمال کی یہ مثالیں کہ (1)کوئی شخص فلم اسٹوڈیو، سینما گھر،ویڈیو شاپ یا میوزک ہاؤس بناتا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی فلمیں بنانے،دکھانے،بیچنے، میوزک تیار کرنے اور سننے سنانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ (2)کوئی شراب خانہ یا قحبہ خانہ بناتا ہے جہاں لوگ برے افعال کرتے ہیں، پھر اس کے مرنے کے بعد بھی یہ اڈے قائم رہتے اور ان میں برے افعال جاری رہتے ہیں۔(3)انٹر نیٹ پر گندی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پر فحاشی، عُریانی اور بے حیائی کی اشاعت کے لئے پیج بناتا ہے،پھر اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ انہیں دیکھتے رہتے اور گناہ میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ (4)کوئی انسان جُوا خانہ بنا کر مر جاتا ہے جس میں اس کے مرنے کے بعد بھی جوا کھیلا جاتا ہے۔ (5)کوئی شخص اسلام کے خلاف اور ظالمانہ قوانین بناتا ہے، پھر اس کے مرنے کے بعد بھی ان قوانین پر عمل ہوتا رہتا ہے۔
مذکورہ بالا اچھے برے جتنے بھی کام ہیں، یہ دین کے نام پر نہیں ہیں کہ انہیں اچھی یا بری بدعت میں شامل کیا جائے بلکہ یہ باقی رہنے والے اعمال ہیں کہ اچھے ہوں گے تو مرنے کے بعد بھی شروع کرنے والے کے نامہ اعمال میں نیکی کے طور پر لکھے جاتے رہیں گے اور برے ہوں گے تو بھی شروع کنندہ کے نامہ اعمال میں گناہوں کے طور پر لکھے جاتے رہیں گے۔ ہمیں اپنے اعمال پر غور کرلینا چاہئے کہ ہماری موت کے بعد نامۂ اعمال میں نیکیاں درج ہو ں گی یا گناہوں کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔
نامۂ اعمال میں لکھے جانے والے آثار یعنی نشانات کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ قدم ہیں جو نمازی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد کی طرف اٹھاتا ہے اور اس معنی پر آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ بنی سلمہ مدینہ طیبہ کے کنارے پر رہتے تھے، انہوں نے چاہا کہ مسجد شریف کے قریب رہائش اختیار کر لیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے قدم لکھے جاتے ہیں،اس لئے تم مکان تبدیل نہ کرو (یعنی جتنی دور سے آؤ گے اتنے ہی قدم زیادہ پڑیں گے اور اجر و ثواب زیادہ ہو گا)۔(ترمذی،5/154،حدیث:3237)
اس سے معلوم ہو اکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جو بندہ مسجد کی طرف چل کرجاتا ہے اسے ہر قدم پر ثواب دیا جاتا ہے اور جو زیادہ دور سے چل کر آئے گا اس کا ثواب بھی زیادہ ہو گا بلکہ ہر قدم پر درجہ بلند ہوتا اور گناہ معاف ہوتا ہے چنانچہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب آدمی اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کی طرف نکلے اور اسے (مسجد کی طرف) نماز نے نکالا ہو تو جو قدم بھی وہ رکھتا ہے ا س کے بدلے ایک درجہ بلند کر دیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیا جاتا ہے۔(بخاری،1/233،حدیث: 647)
صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نیکیاں جمع کرنے کے انتہائی حریص ہو اکرتے تھے، اس لئے ان کی مبارک سیرتوں میں یہ واقعات موجود ہیں کہ چونکہ نماز کے لئے آنے اور جانے میں ہر قدم پر نیکی ملتی ہے، اس لئے وہ زیادہ نیکیاں جمع کرنے کے لئے مسجد سے دور بسنے کا ارادہ کرتے اور پھر بر وقت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا پورا اہتمام بھی کرتے تھے۔ افسوس! فی زمانہ مسجدوں کے قریب گھرہونے کے باوجود،جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد آنالوگوں پر دشوار ہے حالانکہ جماعت سے نماز پڑھنا مرد حضرات پر واجب ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچی ہدایت اور نیکیاں جمع کرنے کی حرص نصیب فرمائے،اٰمین۔
نامۂ اعمال میں لکھے جانے والے آثار یعنی نشانات کی چوتھی تفسیر یہ ہے کہ نامہ اعمال میں لکھے جانے والے قدموں میں اچھے برے مقصد کے لئے اٹھائے جانے والے تمام قدم مراد ہیں، خواہ وہ مسجد، مدرسہ، علمِ دین کی مجلس، صالحین کی صحبت، بیمار کی عیادت، جنازے میں شرکت کے لئے اٹھنے والے اچھے قدم ہوں یا سینما، جوئے، شراب کے اڈے اور بری صحبت کے لئے اٹھنے والے برے قدم ہوں۔ چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت قتادہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ اس نشانِ قدم کو بھی شمار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اٹھا اور اسے بھی جو مَعْصِیَت میں چلا، تو اے لوگو! تم میں سے جو اس چیز کی طاقت رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اس کے قد م لکھے جائیں تو وہ ایسا کرے۔(در منثور، یٰسٓ، تحت الآیۃ: 12، 7/47)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال پر غور کرنے، نیکیوں کی کثرت اور موت کے بعد جاری رہنے والے نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی
Comments