احکام تجارت
*مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
رقم کی ضرورت ہو تو مجبوری میں اپنا گردہ بیچنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ گھر کے فرد کے علاج کے لئے پیسے نہ ہوں اور وہ شدید تکلیف میں ہو تو کیا ہم اس کے علاج کے لئے اپنا گردہ بیچ سکتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جی نہیں! کسی کے علاج کے لئے اپنا گردہ بیچنا، جائز نہیں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہو۔
مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ خرید و فروخت کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ جس چیز کو بیچا جارہا ہے، وہ ”مال“ ہو جبکہ انسانی اعضاء مال نہیں ہیں نیز ان اعضاء کی خرید و فروخت کرنا شرفِ انسانی کے بھی خلاف ہے کہ اللہ پاک نے انسان کو معزز و محترم بنایا ہے لہٰذا سخت مجبوری میں بھی کسی کو اپنے اعضاء میں سے کوئی عضو بیچنا جائز نہیں، اپنی مالی مشکلات کے حل کے لئے اللہ پاک سے دعا کیجئے اور قریبی عزیز کے علاج کے لئے دیگر جائز اسباب اختیار کیجئے۔
شرف انسانی کے متعلق قرآن کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰))
ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اوران کو خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق سے افضل کیا۔(پ15، بنی اسرآءيل:70)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
عنایہ شرح ہدایہ میں ہے: ”و جزء الآدمى ليس بمال... وما ليس بمال لايجوز بيعه“ یعنی انسانی اعضاء مال نہیں ہیں اور جو چیز مال نہ ہو اس کی خرید و فروخت جائز نہیں۔(عنایہ شرح ہدایہ، 3/585)
فتح القدیر میں ہے: ”(ان الآدمى مكرم غير مبتذل، فلايجوز ان يكون شيئا من اجزائه مهانا و مبتذلا) وفى بيعه اهانة“ یعنی انسان شرف و عزت والا ہے لہٰذا کسی انسانی عضو کی توہین و تحقیر کرنا، جائز نہیں اور انسانی عضو کو بیچنے میں اس کی اہانت ہے۔(فتح القدير، 6/391)
بدائع الصنائع میں ہے:”والآدمى بجميع اجزائه محترم مكرم، وليس من الكرامة والاحترام ابتذاله بالبيع والشراء“ یعنی انسان اپنے تمام اعضاء کے ساتھ محترم و مکرم ہے خریدو فروخت کرکے ان اعضاء کی تحقیر کرنا، انسان کے شرف و حرمت کے خلاف ہے۔(بدائع الصنائع، 6/562)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کرنٹ اکاؤنٹ پر مفت سروسز لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ ایک اسلامی بینک کے تحت ایک کرنٹ اکاؤنٹ کھلتا ہے جس میں چیک بک فری سروس،فری ٹرانزیکشن سروس، فری پے آرڈر،فری انٹر بینکنگ سروسزتمام کرنٹ اکاؤنٹ ہولڈرز کو دی جاتی ہیں اور یہ فیسیلٹیز حاصل کرنے کے لئے اکاؤنٹ مینٹین رکھنے کی بھی شرط نہیں ہے۔کیا ایسا کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانا جائز ہے؟ اور کیا یہ فری سروسز سود میں داخل تو نہیں ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی سہولیات اگر تمام ہی اکا ؤنٹ ہولڈرز کو دی جاتی ہیں، چاہے اکاؤنٹ میں رقم موجود ہو یا نہ ہو تو یہ سہولیات قرض سے مشروط نہیں ہیں ان کا لینا جائز ہے۔
ہاں وہ سہولیات جو اس شرط پر دی جائیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہو یا سودی بینک ہے تو وہ کہے سیونگ اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہو تب یہ سہولیات ملیں گی تو ایسی سہولیات کا حاصل کرنا بحکم حدیث ناجائز و حرام ہے۔
قرض پر مشروط نفع حرام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ”كل قرض جر منفعة فهو ربا“ یعنی قرض کی بنیاد پر جو نفع حاصل کیا جائے وہ سودہے۔(کنزالعمال، 6/238، حدیث:15516)
در مختار میں ہے: ”کل قرض جر نفعاً حرام“ یعنی نفع کا سبب بننے والا قرض حرام ہے۔(در مختار، 7/413)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃا للہ علیہ رد المحتار میں اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں: ”اذا کان مشروطاً“ یعنی مشروط نفع حرام ہے۔(رد المحتار، 7/413)
سیدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے قرض کی بنیادوں پر نفع حاصل کرنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ” کسی طرح جائز نہیں۔“(فتاویٰ رضویہ، 25/217)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”یوہیں (قرض دینے والا) کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے۔“(بہار شریعت، 2/759)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مضاربت کا نفع لینا کیسا جبکہ معلوم نہ ہو کہ مضارب نے
شرعی اصولوں کا خیال رکھا یا نہیں؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے شرعی رہنمائی لے کر ایک شخص کو بطور مضاربت پیسے دئیے، اس نے ان پیسوں کے ذریعے تجارت کی اور اَلحمدُلِلّٰہ نفع ہوا، اب ہم مضاربت کو ختم کر رہے ہیں میرے لئے مضاربت کا نفع لیناکیسا ہے کیونکہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ مضارب نے تجارت شرعی اصولوں کے مطابق کی ہے یا نہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ نے اگرمضاربت کی تمام شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے عقدِ مضاربت کیا ہے تو آپ کے لئےمضاربت سے حاصل ہونے والا نفع لینا حلال ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ مضارب نے یہ نفع حرام طریقہ سے کمایا ہےکیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس نے یہ نفع حلال طریقہ سےکمایا ہے۔
درمختار میں ہے: ”دفع مالہ مضاربۃ لرجل جاھل جاز اخذ ربحہ ما لم یعلم انہ اکتسب الحرام“ یعنی کسی جاہل شخص کو مضاربت کے طور پر مال دیا تو مضاربت سے حاصل ہونے والا نفع لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے حرام طور پر کمایا ہے۔
اس کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”لان الظاھر انہ اکتسب من الحلال“ یعنی کیونکہ ظاہر ی طور پر اس نے حلال طریقے سے کمایا ہو گا۔(درمختار، 7/518)
بہار شریعت میں ہے: ”کسی جاہل شخص کو بطور مضاربت روپے دے دئیے، معلوم نہیں کہ جائز طور پر تجارت کرتا ہے یا ناجائز طور پر تو نفع میں اس کو حصہ لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے حرام طور پر کسب کیا ہے۔“(بہار شریعت، 2/813)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*محقق اہل سنّت، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments