غزوہ خندق مع اسباب و اثرات(قسط 01)

تاریخ کے اوراق

غزوۂ خندق: (مع اسباب و اثرات)قسط:01

*مولانا بلال حسین عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کا ا یک بہت بڑا حصہ غزوات پر مشتمل ہے۔یہ پہلو نہ صرف میدانِ جنگ بلکہ حیاتِ انسانی کے دیگر کثیرسیاسی، سماجی و نظریاتی پہلوؤں میں بھی راہنمائی فراہم کرتا ہے۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد شروع ہونے والا دفاعی جنگوں کا مرحلہ جنگ خندق پر اختتام پذیر ہوتا ہے جو کہ شوال یا ذیقعد کے مہینے میں 5ہجری کو لڑی گئی۔([1])

خندق اور احزاب کہنے کی وجہ: خندق کا معنی ہے میدانِ جنگ میں دشمن کے حملے سے حفاظت کے لئے کھودا جانے والا گہرا اور لمبا گڑھا، یہ دفاع کی ایک فارسی جنگی چال ہے۔ اس جنگ میں چونکہ مدینۂ طیبہ کا دفاع کرنے  کے لئے  میدانی علاقہ کے ساتھ ایک لمبا گڑھا کھودا گیا تھا اس لئے اس جنگ کو خندق کہتے ہیں۔ اور غزوۂ احزاب بھی اسی جنگ کا نام ہے، احزاب کا معنی ہے کئی جماعتیں، چونکہ یہودیوں نے مشرکینِ مکہ اور مختلف عرب قبائل کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کیلئے ایک اتحادی فوج (Allied Forces) تیار کی تھی، اس لئے اسے جنگِ احزاب بھی کہتے ہیں۔([2])

پسِ منظر:سازشی حرکتوں اور عہد شکنی کی وجہ سے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جب قبیلہ بنو نضیر کے یہودیوں کا محاصرہ فرماکر انہیں مدینہ طیبہ سے جلا وطن فرمایا تو ان میں سے بعض سرداروں (حُیی بن اخطب وغیرہ) نے خیبرکا رخ کیاجہاں ان کا بےحد اکرام کیا گیا حتی کہ وہاں ان کو اپنا سردار مان لیا گیا۔ غزوۂ بنو نَضِیْر میں جلا وطنی ان کی پیشانی پر ذلت کا بدنُما داغ تھی، جسے دھونے کے لئے انہوں نے مدینۂ طیبہ پر بھاری حملہ کی منصوبہ سازی شروع کی۔ اولاً انہوں نے مکہ آکر کفارِ قریش سے ملاقات کی، یہ ملاقات بہت خوشگوار رہی،قریش کے سینے پہلے ہی بدر وغیرہ کے انتقام کی آگ سے دہک رہے تھے لہٰذا انہوں نے اس جنگ میں شمولیت پر ہنسی خوشی رضا مندی ظاہر کی جس کے بعد یہ لوگ قبیلہ بنو غطفان گئے اور ان کو خیبر کی آمدنی کا لالچ دے کر جنگ پر آمادہ کرلیا الغرض انہوں نے سرزمینِ عرب کے جابجا دورے کرکے کفارِ قریش، بنوغطفان اور بنوسلیم سمیت مختلف قریش اور یہودی عرب قبائل کو جنگ کیلئے تیار کرلیا۔ اس طرح سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے اتحادی فوج تشکیل دی۔ مسلمانوں کے لئے یہ بہت سخت جنگ تھی، عرب کی تاریخ میں اتنا بڑا خونخوار لشکر پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا، یہ پہلا موقع تھا جب عرب کے تمام غیر مسلم ایک ہوکر مدینے کے مسلمانوں  پر دھاوا بولنے  کے ارادے سے منظّم ہوکر نکلے تھے۔ اس فوج کی کل تعداد 10ہزار تھی۔([3])

اِدھر مدینۂ منورہ میں جب اس لشکر جرار کے حملہ کی خبر پہنچی تو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو جمع فرما کر مشورہ فرمایا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ نے خندق کھودنے کی رائے دیتے ہوئے عرض کی: یارسولَ اللہ! فارس میں جب ہمارا محاصرہ کیا جاتا تھا تو ہم خندق کھودتے تھے۔ اہلِ عرب کے لئے خندق کھودنا ایک نئی جنگی تدبیر تھی، سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہُ عنہ کے مشورے کو قبول فرمالیا۔ چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینہ میں حضرت ابنِ اُمِّ مکتوم رضی اللہُ عنہ کو اپنا نائب بناکر نکلے اور سَلع پیاڑ کے دامن میں 3 ہزار انصار و مہاجرین کی افواج کے ساتھ پڑاؤ ڈالا، سلع پہاڑ کو پشت پہ رکھ کر تیزی سے خندق کا کام مکمل کیا گیا جس میں پیارے آقا بھی بنفس نفیس شامل تھے۔ ایک قول کے مطابق 6 دنوں میں خندق کا کام مکمل کرلیا گیا۔

سَلع پہاڑ آپ کی پشت پر تھا، آپ کے سامنے خندق تھی اور خندق کے اُس پار دشمن افواج۔([4])

یہود و مشرکین کی افواج کے حملہ آور ہونے سے پہلے تک مدینے میں آباد یہودیوں کا ایک قبیلہ بنو قُریظہ میثاقِ مدینہ([5])کا پابند تھا مگر دورانِ محاصرہ بنو نضیر کے سردار حُیی بن اَخطب نے اصرار کرکے اس قبیلے کو بھی اپنے ساتھ ملالیا، بنو قریظہ نے عین جنگ کے موقع پر مسلمانوں سے بدعہدی کی۔خندق سے فارغ ہوتے ہی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کا بھی احتساب فرمایا، جسے تاریخ میں غزوۂ بنو قریظہ کہا جاتا ہے۔([6])

(غزوۂ بنو قریظہ کا مختصر بیان اگلی قسط میں آرہا ہے۔)

مشرکین و یہود کی افواج نے مدینۂ منورہ پر حملہ کیا تو صحابہ کی ایمانی شجاعت اور خندق اُن کے آڑےآئی، انہوں نے خندق کے پاس پڑاؤ ڈال کر محاصرے کی غرض سے مورچے بنالئے۔ بعض کفار نے تنگ جگہ سے خندق عبور کرنے کی کوشش کی، ان میں سے کچھ کامیاب بھی ہوئے مگر خندق کے اس پار نبیِّ مَلاحم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم([7]) کے جاں نثاروں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے۔ دورانِ محاصرہ دونوں جانب سے ہونے والی تیر اندازی اور اس طرح کی معمولی جھڑپوں کے علاوہ باقاعدہ جنگ نہ ہوسکی۔([8])

سخت موسم، طویل ہوتا ہوا محاصرہ، راشن کا ختم ہونا اور یہودیوں کی دغا بازی کی خبروں کے باعث پیدا ہونے والا انتشار۔۔۔ یہ چیزیں پہلے ہی اس لشکر کے لئے دردِ سر تھیں کہ اللہ رب العزت کی طرف سے اہلِ ایمان کی نصرت و مدد کے طور پر ایسی سخت آندھی آئی کہ دیگیں چولھوں پر سے الٹ پلٹ ہو گئیں،خیمے اکھڑ اکھڑ کر اڑ گئے اور کافروں پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ سوائے بھاگنے کے انہیں کچھ نہ سُوجھا، لہٰذا امیرِ لشکر نے یہ کہتے ہوئے اپنی فوج کو واپس چلنے کا کہا کہ بخدا! جانور ہلاک ہو رہے ہیں، یہودی ہم سے دغا کرچکے ہیں اور پھر یہ آندھی تو تم دیکھ ہی رہے ہو کہ نہ ہانڈیاں چولہوں پر ٹِک رہی ہیں، نہ ہم آگ جلاسکتے ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی خیمہ وغیرہ بناسکتے ہیں لہٰذا ہمارا محاصرہ بےکار کی تگ و دو کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ الرّحیل الرّحیل (چلو! چلو!)کی صداؤں میں مشرکین دُم دباکر بھاگ نکلے اور یہودی بھی اپنے قلعوں طرف چل دئیے۔([9])

اب مدینۃ الرّسول کی سرزمین اس ناپاک لشکر کے وجود سے پاک صاف تھی سو اسلامی لشکر بھی واپس شہرِ مدینہ آگیا۔

اس جنگ میں مسلمانوں کا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا، کُل چھ مسلمان شہادت سے سرفرازہوئے، مگر انصار کی ایک بہت بڑی شخصیت، قبیلۂ اوس کے سردار یعنی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہُ عنہ  ایک تیر سے زخمی ہو گئے اور پھر شفا یاب نہ ہو سکے۔([10])

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ ذمہ دار ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“کراچی



([1])بخاری،3/54،حدیث:4110-سیرت ابن ہشام،ص387-طبقات ابنِ سعد،2/50

([2])مواہب لدنیہ، 1/238

([3])طبقات ابنِ سعد،2/50، 51

([4])مغازی للواقدی،2/445-طبقات ابن سعد،2/51-سیرت ابن ہشام، ص390

([5])ہجرت مدینہ کے بعد پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہودیوں سےایک معاہدہ فرمایا تھا جس کے مطابق یہودی اس بات کے پابند تھے کہ وہ کفار قریش اور ان  کے مددگاروں کو پناہ نہیں دیں گے اور مدینے پر حملے کی صورت میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔(سیرت مصطفیٰ، ص189، 190)

([6])سیرت ابن ہشام،ص390

([7])یہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام ہے، جس کے معنیٰ ہیں جنگوں والے نبی، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: اَنَا نَبِیُّ الْمَلَاحِم۔(مسند احمد،38/436 حدیث: 23445)

([8])طبقاتِ ابن سعد،2/52-سیرت ابن ہشام،ص391

([9])سیرتِ ابن ہشام،ص395-الخصائص الکبری للسیوطی،1/574

([10])سیرت ابن ہشام،ص403۔


Share