فریاد
کام کی باتیں
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوری کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطاری ملک و بیرونِ ملک مختلف اجتماعات میں بیانات اور کانفرنسز میں تربیتی لیکچرز دیتے رہتے ہیں۔ جن میں نصیحت، تربیت، فکر، اصلاح اور روزمَرَّہ زندگی کے کئی پہلوؤں پر سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کے اہم نکات شامل ہوتے ہیں۔ ذیل میں نگرانِ شوریٰ کے مختلف بیانات اور تربیتی پروگرامز کی گفتگو سے منتخب چند اہم نکات ملاحظہ کیجئے:
*اگر ہم اپنے گھروں کو ٹوٹنے سے بچاناچاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے رویوں کاجائزہ لینا پڑے گا،میاں بیوی دونوں اپنے رویے اور سُلوک(Behaviour) کا جائزہ لیں کہ وہ کتنا بہتر ہے اور کتنا بہتر نہیں ہے۔
*ہمارا پرابلم یہ ہے کہ ہمیں مال کی طلب ہے اور ایسی طلب ہے جو ختم نہیں ہورہی۔
*ہم اُس کل(مستقبلFuture) کی بات کرتے ہیں جس کے پَل کا پتا نہیں،اور اس کل(یعنی قبر و آخرت) کے بارے میں سوچتے نہیں کہ جس میں کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہیں۔
*اس سے پہلے کہ آنکھیں بند ہوں ہمیں اپنی آنکھیں کھولنی ہیں۔
*دعوتِ اسلامی سنّتوں بھری تحریک ہے، یہ ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کو بہتر کرنے کا طریقہ بتاتی ہے۔
*ہم دو طرف سے مار کھارہے ہیں،ایک طرف سے تو یوں کہ ”نیکی نہیں کررہے۔“ اور دوسری طرف سے اس طرح کہ ”ہم گناہ بھی کر رہے ہیں۔“ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ کسی دکان دار نے سارا دن کوئی نفع کمایا ہی نہیں کہ اس کا بزنس نہیں ہوا، جس کے سبب کرایہ، ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر بلز بھی سر پر چڑھ گئے۔ اور ساتھ ہی اسی تاریخ کو دکان میں چوری بھی ہوگئی۔
*بُرائی کرنے والا اچھائی نہیں پاسکتا۔اللہ کی نافرمانی بُرائی ہے، رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی بُرائی ہے، اسلام کی تعلیمات کے خلاف چلنا بُرائی ہے۔
*ہر بُرائی اپنا کوئی نہ کوئی بُرا نتیجہ لاتی ہے اسی طرح اچھائی بھی اپنا کوئی نہ کوئی اچھانتیجہ لاتی ہے۔
*جیسے جیسے اُداسیاں، مایوسیاں اور بے چینیاں بڑھ رہی ہیں ویسے ویسے ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں، لہٰذا اس تناظر میں خرچ کرنے کے لئے ویسے تو بہت سی چیزیں ہیں مگر آج کے اس دور میں جس چیز کو زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے وہ ”آپ کی توجہ، وقت اور حوصلہ افزائی ہے۔“ آج ان چیزوں کی بہت ضرورت ہے، اور یقیناً ان چیزوں کو خرچ کرنے سے انسان کا جاتا کچھ نہیں ہے۔
*جہاں تک ممکن ہو کوشش کی جائے کہ اپنی پریشانیاں اپنے حد تک ہی رکھی جائیں اور بلاضرورت کسی کو بتائی نہ جائیں۔
*یقین، اعتماد اور امید۔ یہ بڑی خوب صورت چیزیں ہیں، نیز یہ زندگی کے پلر ہیں، اگر یہ تینوں ٹوٹ جائیں اور ختم ہوجائیں تو انسان کی زندگی اُجڑ جاتی ہے۔
*اگر آپ کو کسی بھی نعمت کے ملنے پر خوشی حاصل ہوتی ہے، مثلاً کسی معاملے میں آسانی ہوگئی،برکت نظر آگئی، خیر کا پہلو سامنے آگیا، کوئی بھی خوشی والی بات پتا چل گئی۔ اب یا تو اس کے شکرانے میں دو رکعت نمازِ نفل غیر مکروہ وقت میں ادا کر لیجئے، اگر نفل نہیں پڑھ پاتے تو باوُضو قبلے کی طرف رخ کر کے سجدۂ شکر ادا کرلیجئے، میرا یقینِ کامل ہے کہ اگر آپ نے یہ عادت بنالی تو اِن شآءَ اللہ نعمتیں آپ کے پاس تیزی سے آنا شروع ہوجائیں گی۔
*مثبت سوچ کوشش سے بنتی ہے،جب آپ اپنی سوچ کوپوزیٹیو بناتے ہیں تو وہ نیگیٹیویٹی سے باہر نکلنا شروع ہوجاتی ہے،اور جب آپ اپنی سوچ کو نیگیٹیو کرتے ہیں تو وہ پوزیٹیویٹی سے باہر نکلنا شروع ہوجاتی ہے،آپ اپنی سوچ کو جیسا لے کر چلیں گےتو وہ ویسی ہی بنتی چلی جائے گی،سوچ کے تعلق سے میرا اپنا جو تجزیہ اور دیکھا بھالا معاملہ ہے وہ یہ ہے کہ مثبت سوچ آپ کو سکون دلاتی اور منفی سوچ آپ کو بے چینی دلاتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ سکون اور راحت چاہتے ہیں تواپنی سوچ کو مثبت کیجئے۔
*ہماری سوسائٹی میں حقوق کا جتنا پرچار کیا جارہا ہے اسی قدر حق تلفیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ زبانی خرچ ہمارے مزاج کا حصہ بن گیا ہےکہ ہم بس حقوق کا کہتے رہیں البتہ حقوق ادا کرنے کا کوئی حساب نہیں ہے۔اللہ پاک اس بات کو پسند نہیں فرماتا کہ ہم جو کہیں وہ کریں نہیں،قراٰنِ کریم میں اس کا ارشادِ پاک ہے:
(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۴۴))
ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں۔ (پ1، البقرۃ:44)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے۔(پ28،الصّفّ:2)
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
*یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب بھی آپ خلافِ فطرت کچھ کریں گے تو نقصان ہوگا۔ یہ غیرفطری عمل خواہ کھانے پینے کا ہو، سونے جاگنے کا ہو یا زندگی کے کسی بھی پہلو سے متعلق ہو۔
*ہم انسانوں میں رہتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ انسانیت کے ساتھ رہا جاتا ہے۔
*اگر ماں چاہتی ہے کہ میرے بچے اپنے والد کی عزت کریں تو وہ اپنے کردار کے ذریعے اپنی اولاد کو بتائے کہ بیٹا آپ کے ابو کا مقام کیا ہے۔
*اگر باپ چاہتا ہے کہ میری اولاد اپنی ماں کی عزت کرے تو وہ اپنے انداز اور اپنے کردار کے ذریعے انہیں بتائے کہ آپ کی ماں کی اہمیت اور آپ کی ماں کی قدر کیا ہے۔ اس طرح کا انداز اپنی فیملی میں دکھانا بہت ضروری ہوتا ہے۔
*اگر آپ اپنے گھر کو خوشیوں بھرا اور پُرسکون ماحول دینا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے کی عزت کرنے اور کروانے کا درس دیں اور عمل بھی کریں۔
اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Comments