نئے لکھاری
ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء
رعایا کے حقوق
*محمد ہارون عطّاری
کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال اور ان کے درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے کیونکہ حضرت سیدنا ہشام رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت كعبُ الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں۔(اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہٰذا حکمران کو رعایا سے اچھا سلوک کرنا چاہئے تاکہ معاشرے میں امن اور سلامتی قائم ہو۔ آئیے! رعایا کے 5 حقوق پڑھئے:
(1)رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت ابو موسیٰ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے کاموں کے لئے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی کرو سختی و تنگی نہ کرو۔
(مسلم، ص739، حدیث: 4525)
(2)رعایا کی ضرورت و حاجت کو پورا کرنا: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا۔(مراٰة المناجیح، 5/373)
(3)رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہوتو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر وہ اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور اس میں غلطی کرجائے تو بھی اس کے لئے ایک اجر ہے۔(فیضانِ فاروق اعظم،2/337)
(4)رعایا پر ظلم نہ کرنا: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا کہ قاضی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔(مراٰة المناجیح، 5/382)
(5)رعایا کی خبر گیری: حضرت یحییٰ بن عبداللہ اوزاعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب: دیا وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔(اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور)
Comments