بیٹیوں کی تربیت
بیٹیوں کو دین سکھائیں
*ام میلاد عطاریہ
ماہنامہ فیضان مدینہ جون 2024ء
اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: جس شخص كى اىك بىٹى ہو وہ اس كو ادب سكھائے اور اچھا ادب سكھائے اور اس كو تعلىم دے اور اچھى تعلىم دے اور اللہ پاک نے اس كو جو نعمتىں عطا فرمائى ہىں ان نعمتوں مىں سے اس كو بھى دے تو اس كى وہ بىٹى اس کے لئےدوزخ كى آگ سے ستْر اور حِجاب (پردہ) ہوگى۔ ([1])
یقیناً وہ لوگ مذہبِ اسلام کی تعلیمات سے نا بلد اور اس کی خوبیوں سے ناآشنا ہیں جو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی کوتاہی کو اسلامی تعلیمات سے جوڑتے ہیں ان کے لئے یہ حدیثِ مبارکہ روشن دلیل ہونی چاہئے جس میں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کی ترغیب و تاکید موجود ہے۔اسی طرح پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔([2])
اس حدیث میں بھی مرد کی کوئی تخصیص نہیں ہے خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے علم ِ دین سیکھنا فرض ہے۔
اور یہاں علم سے ضَروری دینی علم مُرادہے۔لہٰذا سب سے پہلے اسلامی عقائد کا سیکھنا فرض ہے،اس کے بعدنَماز کے فرائض و شرائط ومُفسِدات(یعنی نَماز کس طرح دُرُست ہوتی ہے اور کس طرح ٹوٹ جاتی ہے)پھر رَمَضانُ المُبارَک کی تشریف آوَری ہوتوجس پر روزے فرض ہوں اُس کیلئے روزوں کے ضَروری مسائل،جس پر زکوٰۃ فرض ہو اُس کے لئے زکوٰۃ کے ضَروری مسائل،اسی طرح حج فرض ہونے کی صورت میں حج کے،نکاح کرنا چاہے تو اس کے،تاجر کو تجارت کے،خریدار کو خریدنے کے،نوکری کرنے والے اورنوکر رکھنے والے کو اِجارے کے الغرض ہر مسلمان عاقِل و بالغ (Wise, Grownup) مردو عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عَین ہے۔
اِسی طرح ہر ایک کے لئے مسائلِ حلال و حرام سیکھنا بھی فرض ہے۔نیز باطنی فرائض مثلاً عاجزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اوران کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطنی گناہ مثلاً تکبُّر، رِیاکاری، حسد، بدگمانی، بغض و کینہ وغیرہا اور ان کا علاج سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مُہلِکات یعنی ہَلاکت میں ڈالنے والی چیزوں جیسا کہ وعدہ خِلافی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، بدنگاہی، دھوکا، ایذاءِ مسلم وغیرہ وغیرہ تمام صغیرہ وکبیرہ گناہوں کے بارے میں ضَروری احکام سیکھنا بھی فرض ہے تاکہ اِن سے بچا جا سکے۔([3])
جو لوگ ایک بیٹی کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں درحقیقت وہ آنے والی نسل کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتے ہیں۔ اس ضرورت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کی بیٹی اور کل کی ماں کی ایسی بھرپور دینی تربیت کی جائے کہ آنے والی نسل عشقِ رسول کے رنگ میں رنگ جائے۔ ماں کی گود چونکہ بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے لہٰذا ایک بیٹی کی صحیح معنوں میں دینی تربیت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ماں خود بھی ضروری علومِ دینیہ سے آگاہ ہو تاکہ وہ اپنی بیٹی کو ابتدائی عمر سے ہی توحید و رسالت کے متعلق راہنمائی فراہم کرتی رہے۔
لیکن آج کل کی مائیں بھی بے عملی اور اسلامی تعلیمات سے دوری کے رجحان کی وجہ سے اپنی اس اہم ذمہ داری کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے قاصرہیں۔ جبکہ اگر ہم اپنے دین کا علم حاصل کریں تو ہمیں پتا چلے گا کہ بچیوں کے حقوق میں اس بات کو شامل کیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت کی جائے۔اور اس پر بھی راہنمائی ملتی ہے کہ ان کو کس عمر میں کس طرح کی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ 7 سے 9 سال کی عمرشرعی مسائل اور دینی تربیت کے لئے سب سے اہم ترین وقت ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کا حکم دیا جائے۔([4])نرمی سے نماز کی طرف لائے، ہوسکے تو الارم وغیرہ کے ذریعے خود اُٹھنے کا عادی بنائیں، اوقاتِ نماز دیکھنا سکھائیں اور نقشۂ نماز اسے دلوائیں، ساتھ ساتھ نماز، سورۂ فاتحہ و دیگر سورتیں اوراذکارِ نماز(جو کچھ نماز میں تلاوت کے علاوہ پڑھا جاتا ہے وہ) بھی درجہ بہ درجہ (Gradually) سکھائیں۔ سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دینے کے ساتھ ہی نماز اور طہارت کے ضروری مسائل بھی سکھائیں کہ سات سے نو برس کی عمر بچیوں کی تَربیت کے تعلق سے بےحد اَہم ہے کہ بچیاں اس کے بعد جلد بالغہ ہوجاتی ہیں۔ دس سال کی عمر میں اگر ضرورت پڑے تو سختی کے ساتھ بھی نماز کی پابندی کروائی جائے۔ نیز اس عمر سے بچیوں کو پردے کا ذہن دینا شروع کریں۔ مردوں، لڑکوں،Cousins سے الگ کرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح اب مردوں سے قراٰن پاک اور دیگر تعلیم نہ دلوائیں کہ نو سال کی عمر کے بعد بچی بالغہ ہو سکتی ہے۔ اسی عمر میں آہستہ آہستہ بچے کی عقل کے مُطابق اسلامی عقائد بتائے جائیں۔بچیوں کے اخلاق اچھے کرنے کے لئے مہلکات(یعنی ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں مثلاً حرص وطمع، حُبِّ دُنیا، حُبِّ جاہ، رِیا، عجب، تکبُّر، خیانت، جھوٹ، ظُلم، غیبت، حسد، کینہ وغیرہ)کی خرابیاں بیان کرے، ہو سکے تو ایسی کہانیاں سنائے کہ ان چیزوں کی نفرت پیدا ہو اسی طرح منجیات(یعنی نجات دلانے والی باتوں مثلاً توکل، قناعت، زُہد، اِخلاص، تواضع، اَمانت، صِدق، عدل، حیا وغیرہ) کی خوبیاں بیان کرے،ہو سکے تو ایسے واقعات سنائے کہ ان چیزوں کی محبّت پیدا ہو۔
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : اپنی اولاد کو 3 باتیں سکھاؤ (۱)اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مَحَبَّت (۲)اہلِ بیت علیہمُ الرّضوان کی مَحبَّت اور (۳) تلاوتِ قراٰنِ کریم۔([5])
ذکرِمصطفےٰ چونکہ نورِ ایمان وسُرورِ جان ہے اس لئے ہمیں ایسے اسباب پیدا کرنے چاہئیں کہ جن کی بدولت بیٹیوں کے دل میں درودِ پاک اور نعت شریف پڑھنے اور سننے کا ذوق و شوق پیدا ہو جائے۔ حمد و نعت اور اولیائے کرام کی منقبت بچیوں کو سنائی جائیں تو ثواب بھی ملے گا اور بچیاں نعت بھی سیکھ جائیں گی۔ اس کے علاوہ صالحین و صالحات کے واقعات کہانیوں کی صورت میں سنانا بھی مفید ہے۔
تمام والدین پر لازم ہے کہ بیٹی کی پرورش کرنےمیں قراٰن وسنّت کی مَحبَّت اس کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھردیں۔
اللہ پاک ہمیں اپنی بچیوں کو علمِ دین کے زیور سے آراستہ کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* نگران عالمی مجلس مشاورت (دعوتِ اسلامی) اسلامی بہن
Comments