کیا رجعی طلاق عدت کے بعد تین طلاق میں بدل جاتی ہے؟

اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

*مفتی  فضیل رضا  عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

کیا رجعی طلاق عدت کے بعد تین طلاق  میں بدل جاتی ہے ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام  طلاق کے متعلق درج ذیل مسائل کے بارے میں:

)1)کیا عورت کو ایک طلاق ہوجانے کے بعد بھی ا س پر عدت لازم ہوتی ہے؟ جبکہ اولاد بھی موجود ہو اور  طلاق واقع ہونے سے کافی عرصہ  پہلے سے ہی عورت  شوہر سے جھگڑ کر بذاتِ خود اپنے والدین کے گھر رہتی رہی ہو۔نیزاس صورت میں عورت نفقے کی حق دار ہوگی یا نہیں؟

)2)اگر عورت  کو ایک رجعی  طلاق دی جائے اور شوہر قولی یا فعلی  رجوع  نہ کرے اور طلاق کی عدت گزر جائے، تو کیا عدت گزر جانے سے ایک طلاق تین طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہے یا ایک ہی شمار میں رہتی ہے؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

)1) اگر شوہر اپنی مدخولہ بیوی کو ایک طلاق دے دےتو اس ایک طلاق کے بعد بھی عورت پر عدت لازم ہوتی ہے،کیونکہ نکاح یا شبہہ نکاح زائل ہونے کے بعد عورت کا نکاح سے ممنوع ہونا اور ایک زمانہ تک انتظار کرنا عدت  کہلاتا ہے۔اور یہ بات ایک طلاق کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے۔نیز نفقہ کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر مطلقہ عورت دورانِ عدت شوہر کی اجازت کے بغیراپنے والدین کے گھررہ رہی ہو اورشوہرکے گھر شرعی حدود وقیود کے ساتھ عدت گزارنے کے لئے راضی نہ ہوتوایسی عورت شرعاً ناشزہ (نافرمان) ہے۔شوہرپرایسی عورت کی عدت کا نفقہ واجب نہیں ہے۔ البتہ اگر وہ واپس شوہر کے گھرمیں آکرعدت پوری کرنے لگے توشوہر پربقیہ عدت کانفقہ دیناواجب ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ اگرمطلقہ عورت شوہر کے ہاں عدت گزارنا چاہتی ہےلیکن شوہر خودہی اپنی بیوی کواپنے گھر عدت گزارنے نہیں دے رہا تو اس صورت میں شوہر پر عورت کی عدت کا نفقہ دینا واجب ہے، اگرنہیں  دے گا تو گنہگارہو گا۔

)2) ایک رجعی طلاق واقع ہوجانے کے بعد اگر دورانِ عدت شوہرقولی یا فعلی رجوع نہ کرے تو عدت گزرنے کے بعدوہ رجعی طلاق بائنہ میں تبدیل ہوجائے گی اور  عورت شوہر کے نکاح سے نکل جائے گی، البتہ وہ طلاق شمار میں ایک ہی رہے گی، تین طلاقوں میں تبدیل  نہیں ہوجائے گی۔  لہٰذا اگر شوہر اسی عورت سے  اس کی رضامندی سے نئے  مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرتا ہے تو اب شوہر کو صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دس ہزار بار یارحمٰن پڑھنے کی منت ماننا ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائےدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  میرا بیٹا بیمار تھا ،تو میں نے منت مانی کہ اگر یہ ٹھیک ہوگیا تو  دس ہزار بار”یا رحمٰن“  کا وِرد کروں گی،اب الحمدُ للہ  بیٹا  ٹھیک ہوگیا ہے، تو اس منت کو پورا کرنا لازم ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

منت لازم ہونے کی ایک شرط  یہ بھی ہے کہ  جس  کام کی منت مانی،اس کی جنس میں سے کوئی فرض یا واجب ہو، جبکہ ”یارحمٰن“  کا ورد ایسا کام ہے جس  کی جنس میں سے  کوئی فرض یا واجب  موجود نہیں ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ  پردس ہزار بار ”یا رحمٰن“ پڑھنا ،شرعاً لاز م نہیں  ہے، نہ پڑھیں تو کوئی گناہ نہیں، مگر پڑھ  لیں تو اچھا ہے کہ  اجر و ثواب کا باعث  ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* دارالافتاء اہل سنت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی


Share