رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خادمین کے ساتھ انداز (دوسری اور آخری قسط)

انداز میرے حضور کے

 رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کاخادمین کے ساتھ انداز(دوسری اور آخری قسط)

*مولانا محمد ناصرجمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

گذشتہ سے پیوستہ

(3)ہمارے یہاں خدمت کرنے والوں کے ساتھ ایسا تکلیف دینے والا انداز اختیارکیاجاتا ہےکہ جس سے  وہ  نجات پانے، جان چھڑانے اور دور جانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نےخادموں کے ساتھ جو انداز اختیار کیا اس کی برکت سے وہ خادم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اپنی جان چھڑکنے کو  اور  آپ  کے مزید قریب ہونے کو  اپنا اعزاز  سمجھتا چنانچہ حضرت زید بن حارثہ   رضی اللہُ عنہ آٹھ سال کی عمر میں دشمنوں کے ہاتھ قید ہوگئے تھے، جب وہ  آپ کو بازار میں فروخت کرنے لائے تو حضرت حکیم بن حزام رضی اللہُ عنہ نے آپ کو خرید  کراپنی پھوپھی حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا کو بطورِ تحفہ پیش کردیا۔ جب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا  کا حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نکاح ہوا تو آپ نے حضرت زید رضی اللہُ عنہ کو خدمتِ مصطفےٰ کے لئے مقرر کردیا۔ جب حضرت جبلہ بن حارثہ  رضی اللہُ عنہ کو معلوم ہوا کہ آپ کے چھوٹے بھائی  بارگاہِ رسالت میں بطورِ خدمت گار  ہیں تو وہ  آپ کو لینے آئے اور یوں عرض کی: یارسولَ اللہ! میرےبھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے۔ آپ نےفرمایا:وہ یہی ہیں،اگر  آپ  کے ساتھ جاناچاہیں تو میں نہیں روکوں گا۔حضرت زید رضی اللہُ عنہ نے یہ سُن کر  عرض کی: یارسولَ اللہ!میں آپ پرکسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔حضرت جبلہ رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں: میں نے اپنے بھائی کی رائے اپنی رائے سے بہتر دیکھی( وہ اِس طرح کہ میں نے انہیں  رسولِ  کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےفراق [جدا ہونے] کا مشورہ دیا اور آپ نے وصال [قریب رہنا] چاہا وہ مجھ سے بہتر رائے والے تھے انہوں نے حضور کو اختیار کیا۔)([1])

(4) اندازِ مصطفےٰ میں”خادم“کو دعا  سے نوازنابھی  ملتا ہے چنانچہ ایک موقع پر حضرت اُمِّ سُلیم  رضی اللہُ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:یارسولَ اللہ! انس آپ کا خادم ہے، اِس کے لئے دعافرمائیے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دعا فرمائی: اے اللہ! اِس کے مال و اولاد میں اضافہ فرما اورجو کچھ تو نے اسے دیا ہےاس میں برکت عطا فرما۔([2])

(5) ہماری خواہش ہوتی ہے کہ خادم ہمارے منہ سے نکلنے سےپہلے ہماری ضرورت پوری کردے اورہم اُس کی شدید ضرورتوں کو پورا کرنے سے بھی بچے رہیں،رسولِ  کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا انداز یہ تھا کہ آپ خود خادموں کی ضرورتوں کا خیال  رکھتے خادم سے یوں پوچھاکرتے:کیا تمہاری کوئی حاجت  ہے؟ایک  دفعہ خادم نے عرض کی: یارسولَ اللہ!میری ایک حاجت ہے۔فرمایا: ‏‏‏‏تمہاری کیا حاجت ہے؟عرض کی: میری حاجت یہ ہے کہ آپ روزِ قیامت میری شفاعت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: ‏‏‏‏اس  بارے میں تیری رہنمائی کس نے کی؟ اس نے کہا: میرےربّ نے۔فرمایا: کیوں نہیں! تو پھرتوسجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔([3])

حضرت ربیعہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کیا کرتا تھا اور  میراپورا دن آپ کی ضروریات پوری کرنے میں گزرا کرتاتھایہاں تک کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عشاء کی نمازادا فرما لیتے، نمازِ عشاء کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے دروازے پر بیٹھ جاتا ۔ میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی ضرورت پیش آجائے، میں کافی دیر تک آپ کی آواز سنتا رہتا کہ آپ سُبْحَانَ اللّٰہ، سُبْحَانَ اللّٰہ،سُبْحَانَ اللّٰہ وَبِحَمْدِہِ کے الفاظ ادا کرتے رہتے، یہاں تک کہ میں ہی تھک کر واپس آجاتا، یا مجھ پر آنکھیں غلبہ پالیتیں اور میں سو جاتا۔([4])

حضرت ربیعہ اسلمی رضی اللہُ عنہ رات کے وقت حسبِ معمول وضو  کا پانی وغیرہ لے کر حاضر تھے، دریائے رحمت جوش میں آیا تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا: ”مانگو! “ وہ صحابی تھے، اِختیارات ِ مصطفےٰ کی  وسعت  صبح  شام اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے،یہ بھی جانتے تھے کہ  یہ وہ بارگاہ ہے کہ جہاں کچھ مانگنےپر انکار نہیں کیا جاتا اور” اگر“ کی قید بھی نہیں لگائی جاتی لہٰذا عرض کی:میں آپ سےجنّت میں آپ کا ساتھ مانگتا ہوں۔ فرمایا: اِس کے علاوہ؟ عرض کی: بس یہی۔ فرمایا:اپنے معاملے میں کثرتِ سجود سےمیری مدد کرو۔ ([5])

(6)اندازِ مصطفےٰ میں خادم  کےبیمار ہونے کی صورت میں  عیادت کے لئے جانا  بھی شامل ہے چنانچہ ایک یہودی لڑکا خدمتِ مصطفےٰ کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ اُس کی طبیعت پوچھنے تشریف لائے، اُس کےسرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا: مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا : ابوالقاسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا: شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔ ([6])

اللہ کےآخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےجیسے اپنےطرزِ عمل سے اِس طبقے کے ساتھ  حسن ِ سلوک سے پیش  آنے کا طریقہ سکھایا ہے اِسی طرح اپنے اندازِ بیان کے ذریعے اِس طبقے کے حقوق بھی بیان فرمائے ہیں، اِس سلسلے میں چند روایات  یہ ہیں :

(1)اُجرت یا مزدوری جلد ادا کرنے کی  تاکید یوں فرمائی: اجیرکو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔ ([7])

(2)اُجرت یامزدوری نہ دینے یاکم دینے پر وعید سنائی چنانچہ اللہ پاک نے فرمایا:تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا میں قیامت میں خود مدعی بنوں گا:(1) وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا اور پھر عہدتوڑا ( 2)وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی (3) وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا پھر کام تو اس سے پورا لیالیکن اس کی مزدوری نہ دی۔ ([8])

(3) باربار غلطی ہوجانے  پرہرمرتبہ معاف کرنے کی  تلقین فرمائی چنانچہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےایک  شخص نے پوچھا: یارسولَ اللہ!میں اپنے خادم (کی غلطیوں) کو کتنی مرتبہ معاف کروں؟ فرمایا:روزانہ70 مرتبہ۔ ([9])

(4) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے خادم کو ہمارا بھائی فرمایا اور اُس کےساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تاکید فرمائی چنانچہ ارشاد فرمایا:تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ پاک نے ان کو تمہارے ماتحت کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی(خادم) ہو،وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سےپہنائے اور اسے کسی ایسے کام کی ذمّہ داری نہ سونپے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا ذمّہ داربناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے۔([10])

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آخری بات (انتقال کے موقع پر) یہ تھی کہ نماز نماز(یعنی نماز کاہمیشہ خیال رکھنا)  اور جو تمہاری ملکیت میں (غلام اور لونڈی) ہیں ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ ([11])

اللہ کریم ہمیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسنِ اخلاق کا صدقہ نصیب کرے۔ اٰمِیْن

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث، المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ترمذی،5/446،حدیث:3841

([2])بخاری، 4/202، حدیث:6344

([3])مسند احمد،25 /479، حدیث:16076

([4])مسند احمد،27/118،حدیث:16579

([5])مسلم، ص199، حدیث: 1093

([6])بخاری،1/456،حدیث:1356

([7])ابن ماجہ،3/162،حدیث:2443

([8])بخاری،2/66،حدیث:2270

([9])ترمذی،3/381، حدیث:1956

([10])ترمذی،3/380،حدیث:1952

([11])ابوداؤد،4/437،حدیث:5156


Share