فریاد
کام کی باتیں
*دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے نگران مولانا محمد عمران عطّاری
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء
دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے نگران حضرت مولانا حاجی محمد عمران عطّاری ملک و بیرون ملک مختلف دینی اجتماعات میں بیانات کرتے رہتے ہیں۔ جن میں نصیحت، تربیت، اصلاح اور روزمَرَّہ زندگی کے کئی پہلوؤں پر سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے اہم نکات شامل ہوتے ہیں۔ ذیل میں انہی میں سے چند باتیں پیش کی جا رہی ہیں:
(1)کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج پر لازمی نظر رکھیں اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ کام جنہوں نے پہلے کیا ہو، جن کا تجربہ ہو ان سے مشاورت کرلیں۔
(2)طبّی معاملے میں کبھی بھی کسی ایک رپورٹ یا رائے پر بڑا فیصلہ نہ کریں۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر آپریشن وغیرہ کا مشورہ دے اور طبّی صورتِ حال سیریس ہو تو ایک سے زائد اچھے اور ماہر ڈاکٹرز سے مشورہ کرلینا چاہئے۔
(3)لوگ صرف مشورے دیتے ہیں اور آپ پر کوئی چیز مسلط نہیں کرتے، اصل فیصلہ توخود آپ نے کرنا ہوتاہے، لہذا ہمیں چند مشورے جمع کرکے پھر ایک فیصلہ کرنا چاہئے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ بندہ استخارے کی طرف جائے کیونکہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنے اصحابِ کرام کو تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(بخاری،1/393،حدیث:1162)
(4)ہماری سوسائٹی میں رشوت نے بہت بربادی پھیلائی ہے،رشوت ایک لیکیج ہے، جیسے کسی واٹر کولر میں لیکیج ہوتو آپ پانی ڈالتے رہیں گے تو وہ اس لیکیج سے نکلتا ر ہے گا، اسی طرح معاشرے میں رشوت لیکیج ہے،لہذا آپ کتنا ہی قانون ڈالتے رہیں اور قانون پر بات کرتے رہیں، وہ قانون اس لیکیج سے نکلتا رہے گا۔لہٰذا جب تک یہ رشوت کے سوراخ بند نہیں ہوں گے تب تک مکمل طور پر قانون پر عمل نہیں ہوپائےگا۔
(5)جب بھی اپنی طبیعت میں کوئی تبدیلی محسوس کریں یعنی نارمل روٹین سے ہٹ کر بھوک، تھکاوٹ، نیند کم یا زیادہ آرہی ہو، سانس پھول رہی ہو یا جسم میں درد وغیرہ کی کیفیت ہو تو اسے اِگنور نہ کریں بلکہ فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
(6)عام طور پرگھروں میں جھگڑا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہرایک یہی چاہتاہےکہ سامنے والا میرے حقوق پورے کرے، میری بات مانے۔ میں بھی سامنے والے کے حقوق ادا کروں،میں بھی اس کی جائز باتوں پر توجہ دوں ایسابہت کم ہوتا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اگرہم اپنےپیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےان دو فرامین پرعمل کریں توہمارا یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے:(۱) جو ہمارے بڑوں کی عزت، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اورہمارے عُلما کا حق نہ پہچانے وہ میری اُمّت سے نہیں۔(مسنداحمد،8/ 412، حدیث: 22819) (۲) اے انس! بڑوں کی تعظیم وتوقیر اور چھوٹوں پر شفقت کرو، تو تم جنت میں میری رفاقت پالو گے۔(شعب الایمان، 7/458، حدیث:10981)
احادیثِ مبارکہ میں ذکر کی گئی دوچیزوں یعنی ”چھوٹوں پرشفقت اور بڑوں کااحترام“ اور ان دونوں کے درست مفہوم کو اگر گھر کےلوگ اپنالیں تو گھروں کے ماحول میں کافی حد تک سُدھار کی صورت ہوسکتی ہے۔
یادرکھئے آدمی عمرکےحساب سےنہیں بلکہ بڑےپَن سے بڑا ہوتا ہے، البتہ اگر عمر کےحساب سے بھی بات کی جائے تو عموماً گھر اور دفتروغیرہ ہر جگہ دو طرح کے افراد ہوتے ہیں کچھ چھوٹے کچھ بڑے، اگر چھوٹے بڑوں کا احترام اور بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں توبہت سارے مسئلےحل ہوسکتے ہیں۔
(7)خودکو لالچ سے بچائیں کیونکہ عموماً لالچ ہمیں بہت زیادہ نقصانات کی طرف لے کر جارہی ہوتی ہے۔ بسااوقات لالچ ہماری عقلوں پر غالب آجاتی ہے، ہمارے درست فیصلوں پر بھی غالب آجاتی ہے اور ہم دھوکا کھاجاتے ہیں۔
(8)جہیز کی ڈیمانڈ ہمارے معاشرے کاناسُورہے۔ لڑکے کے والدین کی طرف سے جہیز کی ڈیمانڈگویااپنے بیٹے کا ریٹ لگانا ہے، ایسے والدین سے میں تو یہ کہوں گا کہ بیٹے کی شادی کرنے کے لئے نکلے ہیں یا اس کا سودا کرنے؟
(9)ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں کہ ٹینشن بہت ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ٹینشن کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دےدی ہے، کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اگر اس کی اوقات سے زیادہ اہمیت دی جائے تو وہ سَر چڑھ جاتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہر بات کو ”ٹینشن“ کہنے کے بجائے ”پریشر“ کہنے کی عادت پیدا کریں، یہ کہیں کہ ”کام کا پریشر ہے“، یہ نہ کہیں کہ ”کام کی ٹینشن ہے“، اگر ٹینشن کو پریشر کہہ دیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ بہت ساری بیماریوں سے نکل جائیں،یہ پارٹ آف دا ورک(Part of the work) ہے، کام کےساتھ جوچیزیں لگی ہوئی ہوتی ہیں وہ کام کا حصہ ہوتی ہیں، انہیں ٹینشن نہیں کہنا چاہئے،جیسے سیزن کے دنوں میں کام زیادہ ہونے کی وجہ سے کاریگروں پر کام کا پریشر ہوتا ہے، ٹینشن ٹینشن کہہ کر ہُوا یہ ہےکہ لوگ ڈپریشن کے مریض بن کر اپنا پیشن (Passion) کھوبیٹھے ہیں، پیشن گیا تو ایگریشن (Aggression) آگیا، ٹینشن سے نکلے تو ایگریشن پر رُکے، پریشر وقت کے ساتھ ساتھ ریلیز ہوجاتا ہے، ہر بات کو ٹینشن کہنے اور اس کی ٹینشن لینے کے بجائے اگر اسے کام کا حصہ کہنےکی عادت پیدا کریں گے تو آپ ایک طرح سے ریلیکس موڈ میں رہیں گے اور کام اپنی جگہ چلتا رہےگا۔
(10)وہ شخص خوش نصیب ہےجس کےپاس کام کاکام ہےاور اس کےپاس فضولیات کے لئے فرصت نہیں۔
(11)اگر اداسیوں اور پریشانیوں سے نکلنا چاہتے ہیں تو اپنی امیدوں اور توقعات کا جائزہ لیں اور پھر انہیں حالات کے مطابق ڈھالیں۔ نیز امیدیں فطرت کے مطابق ہوں، آؤٹ آف نیچر نہ ہوں اور نہ ہی مقاصدِ شرع کے خلاف ہوں۔
(12)میری اولاد نیک نمازی اورپرہیزگار بن جائے،ایسی امیدیں رکھناتودرست ہےلیکن اولاد ان امیدوں پرپوری اترے اس کے لئے والدین نےکیاکیا؟اس پر والدین کو غور کرنا چاہئے۔
(13)باہر بندہ جتنا ڈِسٹرب ہو گھر میں اگر اسے سکون ہے تو وہ کئی کارہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔
(14)شوہر بیوی سے کہتا ہے میری ماں تو میرا فلاں کام یوں کرتی تھی تم ایسی کیوں نہیں ہو!! جبکہ ماں کی عمر 50 سال اور بیوی کی 20 سال، تو دونوں میں تجربے اور عمر کے فرق کو اگنور کیا جارہا ہے۔
(15)عادتیں انسان کے اچھے برے ہونے کا پتا دیتی ہیں۔
(16)ہم اپنی عادتوں کا جائزہ لیں، اچھی عادتیں بڑھائیں اور بری عادتوں سے جان چھڑائیں،اِن شآءَ اللہ ہماری اچھی عادتوں کو دیکھ دیکھ کر ہمارے بچے اپنی عادتوں کو درست کریں گے۔
Comments