قراٰنی تعلیمات
قراٰنی آیات میں غوروفکر کی دعوت(قسط:02)
*مولانا ابوالنّور راشد علی عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء
قراٰنِ کریم نے جن پہلوؤں سے غوروفکر کی دعوت دی ہے ان میں ایک پہلو قراٰنی آیات میں غوروفکر بھی ہے۔ قراٰنی آیات میں غوروفکر کو اس کے نزول کے مقاصد میں سے بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۂ صٓ میں فرمایا:
(كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹))
ترجَمۂ کنزالایمان:یہ ایک کتاب ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تاکہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند نصیحت مانیں۔ ([1])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اس آیت کی تفسیر میں ہے: فقط قراٰنِ پاک کی عربی عبارت کو پڑھ لینا نزولِ قراٰن کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ ا س کی آیات کے معنی اور ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے تاکہ اس کی آیتوں میں غورو فکر کرنا، اس میں بیان کی گئی عبرت انگیز باتوں سے نصیحت حاصل کرنا اور اس میں بتائے گئے اَحکامات پر عمل کرنا ممکن ہو، جبکہ فی زمانہ صورتِ حال یہ ہے کہ قراٰنِ پاک سمجھنا اور اس میں غوروفکر کرنا تو بہت دور کی بات ہے یہاں تو قراٰن پاک گھروں میں ہفتوں بلکہ مہینوں صرف جُزدان اورالماریوں کی زینت نظر آتا ہے اور اس کا خیال آجانے پر اس سے چمٹی ہوئی گرد صاف کر کے دوبارہ اسی مقام پر رکھ دیا جاتا ہے اور اگر کبھی اس کی تلاوت کی توفیق نصیب ہو جائے تو اس کے تَلَفُّظ کی ادائیگی کاحال بہت برا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حالِ زار پر رحم فرمائے اور قراٰنِ پاک صحیح طریقے سے پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔([2])
سورۃ البقرۃ کی آیت:219 میں فرمایا:
(كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ(۲۱۹))
ترجَمۂ کنزالعرفان:اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم غوروفکر کرو۔
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یونہی سورۃ البقرۃ کی آیت 242 میں”لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ“، آیت266 میں ”لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ“، سورۃ النور کی آیت61 میں ”لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ“ فرما کر آیاتِ قراٰنیہ میں غوروفکر کی دعوت دی ہے۔
اسی طرح قراٰنی آیات کو طرح طرح سے بیان کرنے کا مقصد بھی ان میں غوروفکر کو قرارد یا ہے:
(اُنْظُرْ كَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُوْنَ(۶۵))
ترجَمۂ کنزالایمان: دیکھو ہم کیونکر طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں کہ کہیں ان کو سمجھ ہو۔([3])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سورۂ یونس میں فرمایا:
(كَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۴))
ترجَمۂ کنزالایمان: ہم یونہی آیتیں مُفَصَّل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔([4])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سورۃ النحل میں فرمایا:
(وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(۴۴))
ترجَمۂ کنزالایمان: اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف یہ یادگار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو جو ان کی طرف اترا اور کہیں وہ دھیان کریں۔([5])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
سورۃ النور کے آغاز میں ارشاد فرمایا:
(سُوْرَةٌ اَنْزَلْنٰهَا وَ فَرَضْنٰهَا وَاَنْزَلْنَا فِیْهَاۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۱))
ترجَمۂ کنزالایمان:یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری اور ہم نے اُس کے احکام فرض کیے اور ہم نے اس میں روشن آیتیں نازل فرمائیں کہ تم دھیان کرو۔([6])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہ تمام آیات ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ قراٰنی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت کرتے ہوئے ان پر غور بھی کیا جائے، معاشی و معاشرتی پہلو ہوں یا انفرادی و اجتماعی، ہر طرح سے قراٰنی آیات میں غور کرکے زندگی گزاری جائے۔
قراٰنی آیات میں غوروفکر نہ کرنے پر وعید
قراٰنِ کریم نے جہاں اس کی آیات میں غوروفکر کی دعوت دی ہے وہیں غوروفکر نہ کرنے پر تنبیہ بھی فرمائی ہے چنانچہ سورۂ محمد میں فرمایا :
(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(۲۴))
ترجَمۂ کنزالعرفان:تو کیا وہ قراٰن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ دلوں پر ان کے تالے لگے ہوئے ہیں۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
صراط الجنان میں ہے کہ تدبُّر قراٰنِ پاک میں گہرے غور و خوض کو کہتے ہیں جو تعصبات اور جانبداری سے پاک اورعقل و نقل کے حقیقی تقاضوں کے مطابق ہو۔([8])
سورۃ النسآء میں فرمایا:
(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَؕ-)
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا یہ لوگ قراٰن میں غور نہیں کرتے۔ ([9])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
یہاں قراٰن کی عظمت کا بیان ہے اور لوگوں کو اس میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے ۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ قراٰنِ حکیم میں غور نہیں کرتے اور اس کے عُلوم اور حکمتوں کو نہیں دیکھتے کہ اِس نے اپنی فصاحت سے تمام مخلوق کو اپنے مقابلے سے عاجز کردیا ہے اور غیبی خبروں سے منافقین کے احوال اور ان کے مکروفریب کو کھول کر رکھ دیاہے اور اوّلین و آخرین کی خبریں دی ہیں۔ اگر قراٰن میں غور کریں تو یقیناً اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اسے لانے والا اللہ کا رسول ہے۔
قراٰنِ مجید میں غورو فکر کرنا عبادت ہے لیکن!
اس سے معلوم ہوا کہ قراٰن میں غور و فکر کرنا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک آیت سمجھ کر اور غور و فکر کر کے پڑھنا بغیر غور و فکر کئے پورا قراٰن پڑھنے سے بہتر ہے۔([10])
قراٰن کا ذکر کرنا، اسے پڑھنا، دیکھنا، چھونا سب عبادت ہے۔ قراٰن میں غوروفکر کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ قراٰن میں وہی غوروفکر مُعْتَبر اور صحیح ہے جو صاحب ِ قراٰن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین اور حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحبت یافتہ صحابَۂ کرام اور ان سے تربیت حاصل کرنے والے تابعین کے علوم کی روشنی میں ہو، کیونکہ وہ غور و فکر جو اُس ذات کے فرامین کے خلاف ہو جن پر قراٰن اترا اور اس غور و فکر کے خلاف ہو جو وحی کے نزول کا مُشاہدہ کرنے والے بزرگوں نے کیا، وہ یقیناً معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے دورِ جدید کے اُن نت نئے مُحققین سے بچنا ضروری ہے جو چودہ سو سال کے علما، فُقہا،محدثین ومفسرین اور ساری امت کے فَہم کو غلط قرار دے کر قولاً یا عملاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ قراٰن اگر سمجھا ہے تو ہم نے ہی سمجھا ہے، پچھلی ساری امت جاہل ہی گزر گئی ہے۔ یہ لوگ یقیناً گمراہ ہیں۔ (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments