دینی مدارس کی اہمیت و ضرورت

اسلاف کے قلم سے

دینی مدارس کی اہمیت و ضرورت

*مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

یہ سچ ہے کہ جو فکر، اثر اور تعمیری گہرائی اسلافِ کرام کی گفتگو اور تحاریر میں ہے ہم اس کے بہت کم حصے تک پہنچ سکے ہیں۔ یہ بزرگانِ دین ہی کا فیضان ہے کہ لاکھوں کروڑوں صفحات پر تفاسیر، شروحاتِ حدیث، احکامِ فقہیہ، سیرتِ طیبہ، تاریخِ اسلام و عالَم اور زہد و اخلاقیات کی تعلیمات کا خزانہ ہمیں میسر ہے۔ اسلافِ کرام کے قلم کی مضبوطی، علم کے رسوخ، نیت کے اخلاص اور دین کے تصلب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اِن شآءَ اللہ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“میں ایک مضمون اسلافِ کرام کی تحاریر کے اقتباسات پر مشتمل شامل کیا جارہا ہے۔

زیرِ نظر مضمون میں آپ عظیم مفکر و مفسر صدرُالافاضل مفتی سیّد نعیمُ الدّین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ کے ایک مقالہ ”مدارسِ اسلامیہ“ کے اقتباسات پڑھیں گے:

ہر قوم کی ترقی کا دار و مدار تعلیم پر ہے۔ جب انسان کے دماغ میں عمدہ خیالات، بلند حوصلے، نفیس معلومات ہوں گی تو وہ اپنی عقل و تدبیر سے کوئی سا کام لے سکے گا۔ نوعمر مسلمانوں کی معلومات بالعموم ناولوں اور عشقی قصے کہانیوں میں منحصر ہیں اور اس کا جیسا تباہ کن اثر ہوناچاہیے، ہو رہا ہے۔

ترقی کا دور:

مسلمانوں کی ترقی کے عہد کو سامنے لائیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ ہمارے اسلاف شب و روز تعلیم کی ترقی میں مصروف تھے۔ اور ان کی نگاہوں میں تعلیم ہر چیز سے زیادہ ضروری اور قابلِ قدر تھی۔ بے شمار درس گاہیں کھلی ہوئی تھیں۔ علما کو بیش قرار تنخواہیں دی جاتی تھیں، طلبہ کے وظیفے مقرر تھے۔ مسلمانوں کی علمی قدردانی طلبہ میں شوقِ تحصیل پیدا کرتی تھی۔ ان کی راتیں مطالعہ میں سحر ہو جایا کرتی تھیں اور وہ اپنے اعزہ و اقارب اور وطن تک کو مدتِ تحصیل تک فراموش کر دیتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ دنیا کی نگاہوں میں ان کی عزت تھی، جہان ان سے تہذیب سیکھنے کے لیے سَرِ نیاز جھکاتا تھا۔ وہ جس کام کے لیے قدم بڑھاتے تھے، کامیابی ان کا خیر مَقدم کرتی تھی۔ آج بھی جو قوم با اقبال ہے اور زمانہ جس کا موافق ویار ہے، وہ ترقیِ علم میں مَحو ہے اور اس نے مَمالک ِبعیدہ میں درسگاہیں جاری کی ہیں اور روز بروز ان کی ترقی اور اضافہ کی کوششیں ہو رہی ہیں۔

مقصد:

جو سعی کسی مقصد کے لیے کی جاتی ہے، اس سے وہی مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ جَو بَوکر گیہوں کاٹنے کی توقع فضول ہے۔ عمارت بیشک مفید اور کارآمد چیز ہے۔ بازار کی عمارت جس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے وہ تو اس سے حاصل ہوسکتا ہے، لیکن وہ عمارت قلعہ کا کام نہیں دے سکتی۔ اسی طرح حفظانِ صحت کے لیے جو تعلیم دی جائے وہ انجینئری میں کام نہیں آسکتی۔ اگر آپ کو انجینئروں کی ضرورت ہے تو آپ کو اس مدعا کے لیے ایک جدا گانہ دارُالتعلیم در کار ہے۔ میڈیکل کالج اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکتا۔ انجینئری کی درسگاہ وکیل اور بیرسٹر نہیں پیدا کر سکتی کیونکہ وہ اس مقصد کے لیے جاری نہیں کی گئی۔

انگریزی درسگا ہیں ہمارے لیے کافی نہیں:

انگریزی درسگاہیں خواہ وہ اعلیٰ ہوں یا ادنیٰ کالج اور یونیورسٹیاں ہوں یا تحصیلی اور پرائمری، مدارس و مکاتب، مشرقی زبان کی درسگاہیں ہوں، خواہ مغربی کی وہ جس مقصد کے لیے جاری کی گئی ہیں، اس کے سوا دوسرا مقصد ان سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ وہ مسلمانوں کو مسلمان بنانے، اسلامی زندگی کی حفاظت کرنے، اسلامی عادات و خصائل کا رواج دینے، دین داری کے خوگر اور عادی بنانے کے کام میں نہیں آسکتیں۔ ان کے پڑھے ہوئے طلبہ اسلامی عقائد، اسلامی محبت و مودت، اسلامی اخوت و اتحاد اسلامی طرزِ معاملت و معاشرت کا نمونہ نہیں ہو سکتے۔

تعلیم کا اثر:

تعلیم جادو کی طرح اثر کرتی ہے جن میں ابتدائے عمر سے یورپی تعلیم کا نشہ پیدا کیا گیا ہو اور مغربیت ان کی عادتِ ثانیہ ہو گئی ہو۔ اگر وہ اپنے مذہبی امتیازات کو مٹا ڈالیں تو کیا تعجب ہے۔ مسلمانوں کی تباہی کا یہ بہت بڑا سبب ہے کہ وہ مذہبی علوم سے بے تعلق ہونے کی وجہ سے اپنے مسلمانوں کی خصوصیات کو محفوظ نہیں رکھ سکے۔ اور اپنی قومی وملی زندگی کو انھوں نے خود تباہ کر لیا۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قو میں اپنے قومی خصائص کو محفوظ رکھتی ہیں اور اسی میں ان کی زندگی ہے۔

مدارس کی کمی:

مدارس اور درسگا ہیں بہت کم ہیں اور چونکہ ہمارا علمی مذاق (ذوق) خراب ہو چکا ہے، اس لیے عام دماغوں میں مدارس کوئی ضروری اور کارآمد چیز بھی نہیں خیال کیے جاتے۔ اسی وجہ سے مدرسوں کی قلیل تعداد مسلمانوں کو بہت کافی بلکہ ضرورت سے زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ قاعدے کی بات ہے جس چیز سے انسان کو رغبت نہ ہو وہ کم بھی ہو تو زیادہ معلوم ہوتی ہے۔(مقالاتِ صدرالافاضل، ص378)

پیارے اسلامی بھائیو! صدرالافاضل مفتی سیّد نعیمُ الدّین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ نے مدارس کے حوالے سے جو نقشہ کھینچا ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے الگ الگ ہونے سے پہلے کا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ یہ تو اللہ کریم کا بہت فضل ہے کہ علمائے اہلِ سنّت اپنی اپنی کوشش کے ساتھ مدارسِ دینیہ قائم کئے ہوئے ہیں اور اَلحمدُلِلّٰہ دعوتِ اسلامی پر بھی اللہ تعالیٰ کا بہت کرم ہوا کہ جس نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں مدارسِ دینیہ کا قیام کیا ہے۔ تادمِ تحریر (دسمبر2023ء) دعوتِ اسلامی کے تحت 14ہزار سے زائد مدارسِ دینیہ قائم ہیں جن میں 5لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات علمِ دین حاصل کررہے ہیں۔ اور اَلحمدُلِلّٰہ یہ سلسلہ مزید تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

لیکن پیارے اسلامی بھائیو! اس کے باوجود ہمیں دنیا بھر میں بہت سے دینی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے، آئیے! آپ بھی اس مشن میں دعوتِ اسلامی کا ساتھ دیں اور صدرُالافاضل مفتی سیّد نعیمُ الدّین مرادآبادی کے دردِ دین کا مداوا کریں۔


Share