اسلام کی روشن تعلیمات
حفظ ِمَراتِب کا خیال کیجیے(قسط :01)
* مولانا ابوواصف عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء
حفظ مراتب کسے کہتے ہیں ؟
یہ سچ ہے کہ سب مسلمانوں کا احترام واکرام ہے، مسلمانوں کو اہمیت دینی چاہئے، حوصلہ افزائی اور دل جوئی سب کا حق ہے، یہ حق دینا چاہئے، لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں حفظِ مراتب کا خیال رکھنے کا بھی حکم فرمایا گیا ہے۔ حفظِ مراتب کسی انسان کے مرتبے کا لحاظ رکھنے کو کہتے ہیں۔جس شخص کو اللہ پاک نے کسی مقام ومرتبہ یا منصب سے نوازا ہے ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئے جیسے کوئی عالمِ دین یا سید زادہ یا سلطان اسلام ہو تو اس کا اکرام واحترام عام افراد سے بڑھ کر کیا جائے۔
حفظِ مراتب کا خیال کیوں ضروری ہے؟
حضرت علامہ ابوسعید خادمی حنفی علیہ الرَّحمہ فرماتے ہیں: عزت وتکریم آدمی کی غذا ہے اور مخلوق میں جو اللہ پاک کی تدبیر ہے اس کا خیال نہ رکھنے والے کا معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اللہ پاک نے اپنے بندوں کی امیری، غریبی، عزت و ذلت، بلندی وپستی کے احوال کی تدبیر فرمائی ہے تاکہ تمہاری جانچ ہو کہ تم میں کون زیادہ اچھی طرح شکر ادا کرتا ہے، تو جب کسی شخص نے بندے کو اس مقام پر نہیں رکھا جو مقام اللہ پاک نے اس بندے کو دیا ہے اور اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہیں آیا تو اس نے بندے کی توہین کی، اس پر ظلم کیا اور تدبیرِ الٰہی میں اللہ پاک کی نہ مانی، لہٰذا جب تم نشست وبرخاست میں اور کوئی چیز لینے دینے میں باعزت آدمی اور کم حیثیت آدمی کے ساتھ یکساں پیش آتے ہو، امیر وغریب کا کچھ لحاظ نہیں کرتے ہو تو تم معاملات کو سدھارنے سے زیادہ بگاڑ دوگے کیوں کہ جب تم نے مال دار کو دور جگہ دی یا اس کے تحفے کو ٹھکرادیا تو اس کے دل میں تمہاری دشمنی بیٹھ جائے گی اوریوں ہی اگر تم عام عوام جیسا معاملہ حکمرانوں کے ساتھ رکھوگے تو خود کو اپنے ہاتھوں مصیبت وآزمائش میں ڈال دوگے۔ ([1])
حفظِ مراتب اور نبوی تعلیمات:
اُمّت کے لئے اخلاقی خوبیوں کو تمام وکمال تک پہنچانے والے، جہالت کے اندھیرے دور کرنے والے، گناہوں اور معاشرتی برائیوں کی پہچان بتانے والے، سلیقہ شعار زندگی اور مہذب معاشرے کی بنیاد ڈالنے والے کریم آقا، رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حفظِ مراتب کی بھی خوب تعلیم دی ہے، اپنے قول وعمل سے لوگوں کے مقام ومرتبہ کا خیال رکھنے کا بھرپور درس دیا ہے، یہاں چند احادیث ِمبارکہ پیش کی جاتی ہیں:
حضرت میمون بن ابو شبیب رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے ہاں ایک سائل آیا تو آپ نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا عطا فرمایا اور ایک اچھے کپڑوں اور اچھی وضع قطع والا شخص آیا تو آپ نے اسے بٹھاکر کھانا کھلایا۔ اُمُّ المومنین رضی اللہُ عنہا سے اس بارے میں پوچھا گیا تو بیان فرمایا کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: اَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَهُمْ یعنی لوگوں سے ان کے مرتبہ و حیثیت کے مطابق برتاؤ کرو۔([2])
علامہ عبدالرّوف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: مرتبے کے مطابق ہر ایک کی عزت کا خیال رکھو اور نیکوکاری، علم وشرف جیسی اچھی خصلتوں اوربری عادتوں (یعنی بداعمالی، جہالت اور گھٹیا پن) وغیرہ کے اعتبار سے لوگوں کی جوکیفیت وحالت ہو اس کے مطابق ان کے ساتھ برتاؤرکھو، اس حدیث شریف میں حاکموں اور عام عوام سب کو خطاب ہے۔([3])
امام عسکری نے اس حدیث کو حکمتوں اور مثالوں میں سے شمار کیا اور فرمایا: یہ ان آداب اور اخلاقی خوبیوں میں سے ہے جو پیارے نبی محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی اُمّت کو سِکھائے ہیں یعنی لوگوں کے حقوق پوری طرح ادا کرنا، علمائے کرام اور اولیائے کرام کی تعظیم کرنا، بوڑھوں کا اکرام کرنا، بڑوں کو عزت دینا وغیرہ۔([4])
ہرحق دار کو اُس کا حق دیا جائے:
علامہ محمد علی بن محمد علان صدیقی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث پاک میں یہ ترغیب ہے کہ لوگوں کی حیثیتوں، مراتب اور مناصب کا لحاظ رکھا جائے اور نشست و برخاست، زبانی وتحریری گفتگو اور دیگر حقوق میں بعض کو بعض پر ترجیح دی جائے۔ حضرت امام مسلم رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشاد فرمایا: بلند رتبہ شخص کا مقام و مرتبہ گھٹایا نہ جائے اور کم رتبہ شخص کو اس کے مرتبے سے بڑھایا نہ جائے اور فرمان باری تعالیٰ
( وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ(۷۶))
یعنی اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے۔ ([5])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
کے مطابق ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔یاد رہے کہ یہ معاملہ بعض یا اکثر احکام میں ہے جبکہ حدود وقصاص اور ان جیسے دیگر معاملات میں شریعت نے سب کو برابر رکھا ہے۔([6])
حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف مُلّا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:ایک قول کے مطابق اس فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں مراد لوگوں کے مخصوص ومعلوم مقام ومراتب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا یہ قول بیان فرمایا:
(وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌۙ(۱۶۴))
ترجَمۂ کنز الایمان: ہم میں ہر ایک کا ایک مقام معلوم ہے۔([7])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مقام و مرتبہ ہوتاہے جس سےوہ کسی اور مقام ومرتبہ کی طرف تجاوز نہیں کرسکتا لہٰذا کم مرتبے والا کسی معززکی جگہ نہیں لے سکتا اور کسی معزز کو کم درجہ کے مرتبے میں نہیں رکھ سکتے پس ہر ایک کے رتبے کا لحاظ کرو اورمالک وملازم اور سردارو ماتحت میں برابری نہ برتو، ہر ایک کو اس کے فضل وشرف کے مطابق عزت دو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
(وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ)
ترجَمۂ کنز الایمان: اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی۔([8])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
(یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ )
ترجَمۂ کنز الایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔([9]) ([10])
(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)
حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:جس شخص کی ہیئت اور کپڑے اس کے بلند مرتبہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں بندہ اس شخص کی عزت واکرام زیادہ کرے اور لوگوں سے ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آئے۔مروی ہے کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہُ عنہا ایک سفر میں تھیں، دوران سفر آپ نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو کھانا پیش کیا گیا، اسی دوران ایک سائل آیا اور اس نے سوال کیا۔آپ نے خادم سے فرمایا: ”اسے کھانے میں سے ایک روٹی دے دو۔“ پھر ایک شخص سواری پر آیا توآپ نے فرمایا: ”اسے کھانے کی دعوت دو۔“ عرض کی گئی: آپ نے مسکین کو ایک روٹی دی اور غنی کو کھانے کی دعوت دے رہی ہیں۔ فرمایا:”بے شک اللہ پاک بندوں کو ان کے مرتبے پر رکھتا ہے، لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان کے ساتھ ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کریں مسکین تو ایک روٹی پر راضی ہےجبکہ ہمارے لئے یہ بات نامناسب ہےکہ ہم غنی کو اچھی وضع قطع ہوتے ہوئے ایک روٹی دیں۔‘‘([11])
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :
” سائل کی حاجت اسی قدر تھی اور کسی رئیس کو ٹکڑا دیا جائے توباعث اس کی سُبکی اور ذلت کاہو لہٰذا فرق مراتب ضرورہے اور اصل مدارنیت پر ہے اگرسائل کوبوجہ اس کے فقر کے ذلیل سمجھے اور غنی کو بوجہ اس کی دنیا کے عزت دارجانے تو سخت بیجاسخت شنیع ہے اور اگرہرایک کے ساتھ خلق حسن منظور ہے توجتنا جس کے حال کے مناسب ہے اس پرعمل ضرور ہے ۔ واﷲ تعالیٰ اعلم“([12])
اس پیرا گراف کا خلاصہ یہ ہے کہ ”مانگنے والے کو ایک ٹکڑا ہی چاہئے تھا لیکن کسی امیر کبیر آدمی کو روٹی کا ایک ٹکڑا دے دیا جائے تو یہ اس کی بے عزتی اور توہین ہوگی۔ لہٰذا لوگوں کے مرتبوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ اور اعمال کا اصل مدار نیت پر ہے، اگر مانگنے والے کو اس کی غربت کے سبب ذلیل و گھٹیا سمجھے اور مال دار کو اُس کی دولت کی وجہ سے عزت دار جانے تو یہ نہایت غلط اور بہت بُرا ہے۔ اگربندہ ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہتا ہے تو جس آدمی کے حال کے مطابق جیسا انداز ہونا چاہئے وہ انداز اپنانا ضروری ہے۔“
خاندانی شرافت اور عادتوں کا لحاظ رکھا جائے:
رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جَالِسُوا النَّاسَ عَلَى قَدْرِ اَحْسَابِهِمْ وَخَالِطُوا النَّاسَ عَلٰى قَدْرِ اَدْيَانِهِمْ وَاَنْزِلُوا النَّاسَ عَلٰى قَدْرِ مَرُوْآتِهِمْ وَدَارُوا النَّاسَ یُغْفَرْ لَكُمْ
ترجمہ: لوگوں کی ہم نشینی ان کی خاندانی شرافت کے مطابق اختیار کرو، لوگوں سے میل جول ان کے دستور کے مطابق رکھو، لوگوں سے برتاؤ ان کی خصلتوں کے مطابق رکھو اور لوگوں کے ساتھ محبت سے پیش آؤ تمہاری بخشش کردی جائے گی۔([13])
لوگوں کی خاندانی شرافت، ان کے دستور، رسم ورواج اور عادتوں کا خیال رکھنا یہ شریعت کا مقصد، عقل کا تقاضا اور حکمت کی اصل ہے۔ اس ضمن میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک قاعدہ کلیہ بیان فرمایا ہے جسے آسان لفظو ں میں پیش کیا جاتا ہے:
”وہ اصول وقانون جس کا یاد رکھنا واجب ہے وہ یہ ہے کہ بندہ فرائض کی ادائیگی اور حرام سے بچنے کو لوگوں کی خوشی و پسند پر مقدم رکھے اور ان کاموں میں کسی کی کبھی کوئی پرواہ نہ کرے جبکہ مستحب کام بجالانے اور جوزیادہ بہتر عمل نہ ہواُسے چھوڑنے کے مقابلے میں لوگوں کی رعایت اور ان کے ساتھ نرم رویہ کو زیادہ اہم سمجھے اور فتنہ وفساد اور نفرت و تکلیف دینے کا سبب نہ بنے۔ یوں ہی لوگوں میں رائج ایسی رسمیں اور عادتیں جن کا حرام و گناہ ہونا شریعت سے ثابت نہ ہو اُن میں اپنی برتری کی خاطر مخالفت نہ کرے اور الگ راستہ نہ اپنائے کہ یہ سب میل جول اور محبت و دوستی کےمخالف اور حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندو خواہش کے خلاف ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ خوبصورت نکتہ، زبردست حکمت، سلامتی والا راستہ اورعمدہ طریقہ ہے جس سے بہت سارے خشک مزاج عبادت گزار اور بناوٹی صوفی غافل اور ناواقف ہوتے ہیں، وہ اپنے گمان میں احتیاط کرنے اور دین پر چلنے والے بنتے ہیں مگر حقیقت میں اصل حکمت اور مقصدِ شریعت سے دور ہیں۔“([14]) جاری ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments