صحابیِ رسول حضرت سیّدنا ابوعثمان مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی پیدائش سن 2 ہجری میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ عشرۂ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت سیّدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بھانجے ہیں۔ سن 8 ہجری میں آپ مدینَۂ منورہ آگئے۔ بارگاہِ رسالت میں گزرنے والے لمحات: رحمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصال کے وقت آپ کی عمر تقریباً 8 سال تھی(شرح ابی داؤد للعینی،ج5،ص166-تاریخ ابن عساکر، ج58،ص 164) مگر پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ گزارے ہوئے پُر کیف لمحات کو بے قراری کے ساتھ یاد کیا کرتے، چنانچہ فرماتے ہیں: (1)ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے اور میں پیچھے کھڑا تھا، (گزشتہ آسمانی) کتابوں میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف مبارکہ لکھے ہوئے تھے اور یہود اُن اوصاف کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں تلاش کرتے تھے لہٰذا) ایک یہودی نے کہا: اپنے نبی کی پیٹھ سے کپڑا ہٹاؤ، میں نے آگے بڑھ کر کپڑا ہٹایا تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرے منہ پر پانی چھڑک دیا۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،ج 1،ص267) (2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ایک تھال میں کھجوریں عطا فرمائیں، (اس وقت) میرے پاس تمہارے اس مٹی کے برتن جیسا بھی برتن نہ تھا۔(مستدرک،ج4،ص671، حدیث: 6284) تربیت یافتہ نوجوان: ایک مرتبہ یمن سے حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس کچھ چادریں آئیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہنے ان چادروں کو لوگوں میں تقسیم کردیا مگر ایک چادر جو بہت عمدہ تھی کسی کو نہ دی، پھر پوچھا: تم لوگ مجھے قریش کے کسی نوجوان کے بارے میں بتاؤ جس نے اچّھی تربیَت پائی ہو؟ لوگوں نے ”حضرت مِسْوَر بن مَخْرَمَہ“ کا نام لیا تو حضرتِ سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ چادر آپ کو عطا فرما دی۔ (تاریخ ابن عساکر،ج58،ص165 ملخصاً) امامت کا حقدار: ایک مرتبہ حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما تجارت کا سامان لے کرعُکاظ کے بازار میں پہنچے تو وہاں ایک شخص کو امامت کرتے دیکھا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اسے پیچھے کرکے دوسرے کو کھڑا کردیا، وہ شخص حضرتِ سیّدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: حضرت مِسْوَر نے میری جگہ دوسرے آدمی کو امام بنا دیا ہے، حضرتِ سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کو بلوا کر وجہ پوچھی تو آپ نے وضاحت کی: بازارِ عُکاظ میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جنہوں نے قراٰن پہلے نہیں سنا اور یہ شخص تَوتلا ہے اس کے حروف صحیح ادا نہیں ہوتے لہٰذا مجھے ڈر ہوا کہ لوگ اس کی زبان سے قراٰن سُن کر (اسلام کے) قریب نہیں آئیں گے،یہ سوچ کر اسے پیچھے کردیا اور صحیح قراٰن پڑھنے والے کو اس کی جگہ کھڑا کر دیا۔ یہ سُن کر امیرُالمؤمنین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: جَزَاکَ اللہ خَیْراً، اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں اچّھا بدلہ عطا فرمائے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 58،ص166ملخصاً) نیکی کی دعوت: ایک مرتبہ حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ایک شخص کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا جیسے مرغا ٹھونگیں مارتا ہے (یعنی وہ شخص جلدی جلدی نماز پڑھ رہا تھا جس کی وجہ سے نماز صحیح ادا نہیں ہورہی تھی) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے پاس گئے اور فرمایا: کھڑے ہوجاؤ اور نماز پڑھو، اس نے کہا: میں نماز پڑھ چکا ہوں! فرمایا: خدا کی قسم! تم نے نماز (صحیح) نہیں پڑھی، چنانچہ اس شخص نے دوبارہ نماز (صحیح طریقے سے) پڑھی، پھر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! ہمارے جسم میں طاقت ہو تو تم لوگ ہماری نظروں کے سامنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہیں کرسکتے۔(الزہد لابن مبارک، ص:486) عبادت و ریاضت: حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما جتنے دن مکّہ سے باہر گزارتے، واپس آکر ہر دن کے حساب سے کعبۃُ اللہ شریف کا طواف کرکے 2 رکعت نماز پڑھتے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج4،ص480) خوفِ خدا: آپ ضی اللہ تعالٰی عنہ پر خوفِ خدا کا اتنا غلبہ رہتا تھا کہ قراٰن مجید سننے کی تاب نہ لاتے تھے۔ کسی آیت کو سنتے تو چیخ نکل جاتی اور کئی کئی دنوں تک بےہوش رہا کرتے۔(احیاء العلوم،ج4،ص227) خیر خواہی: حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ایک کامیاب تاجر تھے مگر مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ دیکھئے کہ ایک مرتبہ بہت سارا غلّہ جمع کیا مگر موسمِ خزاں کے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ دیا (اور غلّہ کے دام بڑھ گئے) یہ دیکھ کر ارشاد فرمایا: اب مسلمانوں سے نفع لینا مجھے ناگوار گزر رہا ہے، جو میرے پاس آئے گا میں اُسے اسی قیمت پر بیچوں گا جس پر خریدا ہے۔(الزہد لاحمد، ص 220) اہلِ بیت کی خدمت اور حضرت امیر معاویہ سے محبت: شہادتِ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد امام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ جب یزید کے پاس سے لوٹ کر مدینَۂ مُنَوَّرہ پہنچے تو حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کے پاس گئے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور حکم دیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بھی حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تذکرہ کرتے ان کے لئے دعائے رحمت ضرور کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص480ملتقطاً) مجاہدانہ کارنامے: 27 ہجری کو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جہاد میں شرکت کے لئے مصر تشریف لے گئے(تاریخ ابن عساکر،ج58،ص163) اور حضرت سیّدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سربراہی میں افریقہ کی فتوحات میں پیش پیش رہے۔(اعلام للزرکلی،ج 7،ص225) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت سیّدنا عثمانِ غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت تک مدینَۂ منوّرہ میں رہائش رکھی پھر مکّۂ مکرّمہ میں رہائش اختیار کرلی۔(اسد الغابہ،ج5،ص185) مکّۂ مکرّمہ میں حضرت سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما آپ سے مشاورت کئے بغیر کسی کام کا فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء،ج4،ص481) واقعۂ شہادت: سن 64ہجری 5 ربیعُ الاوّل یا ربیعُ الآخر منگل کے دن یزیدی فوج نے مکّۂ مکرّمہ پر منْجَنیق (پتھر پھینکنے کے آلے) کے ذریعے پتھر برسائے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ حرم شریف میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک پتھر کا کچھ حصہ ٹوٹ کر آپ کے سیدھے رُخسار اور کنپٹی پر لگا، آپ زخمی ہوکر زمین پر تشریف لے آئے اور بے ہوش ہوگئے جونہی اِفاقہ ہوا فوراً زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) اللہ کے رسول ہیں۔ پانچ دن تک زخمی رہے اور اسی حالت میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔(تاریخ ابن عساکر،ج 58،ص173، 175، 176 ملخصاً) ایک روایت کے مطابق ایک شخص نے آپ کے سامنے (یہ) دو آیتیں پڑھیں(یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ(۸۵)وَّ نَسُوْقُ الْمُجْرِمِیْنَ اِلٰى جَهَنَّمَ وِرْدًاۘ(۸۶)) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن ہم پرہیزگاروں کو رحمٰن کی طرف لے جائیں گے مہمان بناکر اور مجرموں کو جہنّم کی طرف ہانکیں گے پیاسے(پ16، مریم: 86،85)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: پھر پڑھو، اس شخص نے دونوں آیتیں دوبارہ پڑھیں تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک زور دار چیخ ماری اور روحِ اقدس عالَمِ بالا کی طرف پرواز کرگئی۔(احیاء العلوم،ج4،ص227 ملخصاً) نمازِ جنازہ اور تدفین: آپ کی نمازِ جنازہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے پڑھائی، قبر مبارک مکّۂ مکرّمہ کے مشہور قبرستان جَنّۃُالمَعْلٰی میں ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر 62برس تھی۔ (تاریخ ابن عساکر،ج 58،ص176) کتنی احادیث روایت کیں؟: آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ احادیث کی تعداد 22 ہے چار حدیثیں امام بخاری نے اور ایک حدیث امام مسلم نے روایت کی ہے جبکہ دو حدیثیں مُتَّفقٌ عَلَیہ (یعنی بخاری و مسلم دونوں میں موجود) ہیں۔(شرح ابی داؤد للعینی، ج5،ص166)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* مُدَرِّس مرکزی جامعۃ المدینہ، باب المدینہ کراچی
Comments