کھانا کھائے بغیر کمپنی سے کھانے کے پیسے وصول کرنا
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں اگر سیٹھ نے آپ کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ چاہے آپ کھانا کھائیں یا نہ کھائیں ہم آپ کو کھانے کے پیسے دیں گے تو اس صورت میں ہفتہ بعد جب حساب ہو تو آپ اس وقت کے کھانے کے پیسے بھی لے سکتے ہیں کہ جس وقت آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا لیکن اگر سیٹھ کی طرف سے صرف یہ سہولت موجود ہو کہ کھانا کھائیں گے تو پیسے دیں گے اور اگر کھانا نہیں کھائیں گے تو پیسے نہیں ملیں گے تو اس صورت میں آپ کا اس وقت کے کھانے کے پیسے لینا کہ جس وقت آپ نے کھانا نہیں کھایا تھا جائز نہیں۔ اگر آپ اس وقت کے پیسے لیں گے تو یہ جھوٹ اور دھوکا ہوگا اور وہ پیسے آپ کے لیے حلال بھی نہیں ہونگے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
Goodwill کا عوض طلب کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض اوقات شراکت داری میں اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کاروبار نقصان میں جارہا ہو تو پرانے پارٹنر کاروبار کو بہتر بنانے کے لیے نئے پارٹنر کو شامل کرتے ہیں تو نیا پارٹنر پرانے پارٹنر سے کہتا ہے کہ مارکیٹ میں میری گُڈ وِل (Goodwill) زیادہ ہے اس لیے مثال کے طور پر اگر میں ایک لاکھ بزنس میں لاؤں تو مجھے ڈیڑھ لاکھ کا کیپیٹل دیا جائے یعنی اسکا حق پچاس ہزار اضافی بڑھایا جائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں محض گُڈ وِل (Goodwill) کی بنیاد پرکیپیٹل میں اضافہ کروانا شرعاً درست نہیں کیو نکہ گُڈ وِل (Goodwill) کی حیثیت ایک منفعت کی سی ہے یہ کو ئی مال نہیں ہے کہ جس کے عوض میں کچھ لیا جائے۔ لہٰذا نئے پارٹنر کا کیپٹل اتنا ہی شو (Show) کریں گے جتنا اس نے دیا ہے اگر ایک لاکھ کا کیپیٹل ہے تو ڈیڑھ لاکھ شو (Show) کرنا جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دفعِ ظلم کے لیے رشوت دینا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے کسی ایسی جگہ سے مٹی یا بجری کی گاڑی بھری جہاں سے مٹی بھرنے سے گورنمنٹ نے منع کیا ہوا تھا لیکن پھر بھی آپ نے گاڑی بھری اور آپ کو چیک پوائنٹ پر روک لیا گیا جس کے نتیجے میں آپ کو رشوت دینا پڑی تو اس صورت میں آپ کا رشوت دینا اور ان کا لینا دونوں ناجائز اور حرام ہے۔ البتہ اگر کسی ایسی جگہ سے آپ نے گاڑی بھری جہاں سے گاڑی بھرنے پر کسی قسم کی کوئی قانونی پابندی عائد نہیں تھی اگر کسی حکومتی پرمٹ یا لائسنس کی ضرورت تھی تو وہ بھی آپ کے پاس موجود تھا نیز ڈرائیور اور گاڑی کے کاغذات بھی مکمل تھے الغرض آپ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی تھی لیکن پھر بھی آپ کو رشوت لیے بغیر نہیں چھوڑتے تو ایسی صورت میں آپ کو دفعِ ظلم کی وجہ سے رشوت دینا تو جائز ہے البتہ ان لوگوں کا رشوت لینا ناجائز اور حرام ہی ہوگا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا کیسا؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا کیسا کہ نقد خریدیں گے تو 500 روپے کی اور ادھار خریدیں گے تو 550روپے کی؟ نیز اس صورت میں جو اضافی پیسے دئیے گئے یہ درست ہے یا نہیں؟ اور اس طرح سے جو آمدنی حاصل ہوگی کیا وہ حلال ہوگی یا حرام؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:پوچھی گئی صورت میں دکاندار سے اس طرح کھاد خریدنا بالکل جائز ہے کہ نقد فی بوری 500 روپے کی اور ادھار 550روپے کی۔ اس طرح خرید و فروخت کرنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں جبکہ قیمت کے یہ مختلف آپشنز صرف سودا مکمل ہونے سے پہلے بارگیننگ کرتے ہوئے دئیے گئے ہوں اور سودا کسی ایک قیمت پر ہی طے ہو۔ واضح رہے اگر یہ طے ہوا کہ مقررہ وقت سے تاخیر کرنے کی صورت میں اتنی رقم مزید دینا ہوگی تو یہ درست نہیں بلکہ ایسی شرط سودے کو فاسد کردے گی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہ ہوگی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ایڈوانس رقم دے کر پورے ماہ خریداری کرتے رہنا
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک صا حب نے ایک سبزی والا گھر لگوایا ہوا ہے وہ مہینے کے شروع میں اس کو پا نچ سو روپے دے دیتے ہیں اور پھر وہ سارا مہینا بغیر تولے ایک تھیلی سبزی کی تیار کرکے ان کے گھر دیتا رہتا ہے اب ان کا یہ سبزی لینا اور اسے استعمال کرنا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب:مذکورہ طریقہ جائز نہیں۔ اول تو اس میں یہ ہی طے نہیں کہ کیا سبزی لی جائے گی اور کتنی لی جائے گی حالانکہ خریدی گئی چیز کا ریٹ طے کرنا اور مقدار طے کرنا ضروری ہوتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح پیشگی یا ایڈوانس میں رقم رکھوا کر پورے مہینے خریداری کرتے رہنے سے بھی فقہاء نے منع فرمایا ہے۔
چنانچہ صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی لکھتے ہیں:”پنساری کو روپیہ دیتے ہیں اور یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ روپیہ سودے میں کٹتا رہے گا یا دیتے وقت یہ شرط نہ ہو کہ سودے میں کٹ جائے گا مگر معلوم ہے کہ یونہی کیا جائے گا تو اس طرح روپیہ دینا ممنوع ہے کہ اس قرض سے یہ نفع ہوا کہ اس کے پاس رہنے میں اس کے ضائع ہونے کا احتمال تھا اب یہ احتمال جاتا رہا اور قرض سے نفع اٹھانا ناجائز ہے۔“(بہارِ شریعت،ج3،ص481)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دار الافتا اہلِ سنّت نورالعرفان ، باب المدینہ کراچی
Comments