تُرکی میں لوگوں کا مذہبی رجحان قابلِ تعریف ہے، ہر طرف مسجدوں کی بہاریں ہیں جن میں نمازیوں کی تعداد پاکستان کی بنسبت بہت زیادہ ہے، ہر نماز کے بعد تقریباً تمام نمازی بڑی محبت سے تسبیحِ فاطمہ پڑھتے ہیں، عصر و عشاء کی پہلی چار غیر مُؤکّدہ سنّتیں بھی لوگ پابندی سے ادا کرتے ہیں، فجر و مغرب کے بعد امام صاحب سورۂ حشر کی آخری آیات تلاوت کرتے ہیں اور لوگ ذوق شوق سے سنتے ہیں۔ عشقِ رسول کی دولت بھی بہت نمایاں نظر آتی ہے جیسے ابھی کچھ عرصہ پہلے پورے مُلک میں یومِ تشکر ”یومِ درود و سلام“ کی صورت میں منایا گیا اور پورا ملک پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود و سلام پڑھنے میں مشغول ہوگیا،سبحٰن اللہ۔ ترک مسلمانوں کے اخلاق میں حقیقی اِسلامی اخلاق کی جھلک نظر آتی ہے یعنی ملنساری، نرم مزاجی، مسکراہٹ سے ملنا، غصّہ نہ کرنا، دوسروں کو عزّت دینا، مہمان نوازی وغیرہ ان میں پائی جانے والی عام اسلامی خوبیاں ہیں جو دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے قابل ِ رشک ہیں، کاش کہ ہمارے ہاں بھی یہ اخلاقِ حسنہ اور نماز و عبادت سے محبت عام ہوجائے۔ مَردوں کے ساتھ ساتھ اسلامی بہنوں میں بھی عبادت کا جذبہ، نیکیوں کی رغبت، پردے کا اہتمام اور اسکارف کا استعمال بھی خوب ہے۔ الغرض یہاں مجموعی طور پر ایک اسلامی معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود نیکی کی دعوت کی حاجت تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں بے نمازی، گانے سننے والے بلکہ گانوں میں ڈوبے ہوئے اور شرعی مسائل سے لاعلم لوگ بھی کم نہیں ہیں، یونہی علمِ دین کی کمی، لڑکیوں میں بے پردگی، عورتوں میں مغربی لباس، مخلوط نظامِ زندگی، غیر اسلامی اقدار، موسیقی، معاشرتی معاملات میں دوسروں کی حق تلفی، نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرنے کے شرعی حکم پر عمل کی کمی بھی کم نہیں ہے۔ برائی اور گناہ کے جو اسباب و وسائل دنیا میں کہیں بھی پائے جاسکتے ہیں وہ یہاں بھی میسر ہیں۔ علماء و مشائخ کی ایک بڑی تعداد اللہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل و کرم سے موجود ہے لیکن بے نمازیوں کو مسجد میں لانے، بے پردگی کے متعلق سمجھانے، دین سے دُور لوگوں کو نیکی کی دعوت دینے کیلئے بہرحال ایسے لوگوں کی شدید ضرورت ہے جو لوگوں کے پاس جا جا کر نیکی کی دعوت دیں، بُلا کر مسجدوں میں لائیں، سمجھا کر نماز اور شرعی مسائل سکھائیں، بِٹھا کر تقوی و خوفِ خدا کا درس دیں، موت و قبر یاد دلا کر حلال و حرام کا فرق سمجھائیں، درد مندی و خیر خواہی کے ساتھ نیکیوں کی محبّت اور گناہوں سے نفرت پیدا کریں اور اسی مقصد کیلئے دعوتِ اسلامی کا یہ مدنی قافلہ تُرکی کی سرزمین پر پہنچا تھا۔
حضرت ابو ایّوب اَنصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مزار پر حاضری کے بعد ترکی کے شہر بُرسا روانہ ہوئے، کچھ سفر بذریعہ سڑک تھا اور کچھ براستہ سمندر کیونکہ سمندری راستے سے جانے میں وقت اور اخراجات کی کافی بچت تھی۔ تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد ”بُرسا“ شہر پہنچے اور ایک مدرسے میں حاضر ہوئے جو شامی یتیم بچوں کا مدرسہ تھا۔ شفقتِ پدری سے محروم اِن بچّوں کو دیکھ کر دِل بھر آیا۔ ظلم کی آندھی ان بچّوں کی روشن زندگی کو کس طرح دنوں میں تاریک کرگئی کہ لاکھوں بچّوں کو یتیم بنا دیا اور باپ جیسی نعمت یا ماں باپ جیسی دونوں نعمتوں سے ہمیشہ کیلئے محروم کردیا۔ چھٹی کے بعد جب ہمارے بچے گھر آتے ہیں تو ان کیلئے ماں کی آغوش اور باپ کے بازو کھلے ہوتے ہیں مگر آہ کہ اِن بچّوں کے سر سے رحمت کی یہ چھاؤں اور راحت کا سائبان ہمیشہ کیلئے کھینچ لیا گیا ہے اور اب یہ بچے بے آسرا، پردیس میں غیروں کی امداد اور مخیر حضرات کی زکوٰۃ و خیرات پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں رحیم و کریم، پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یتیموں پر شفقت بھی یاد آتی ہے اور یہ فرمان بھی دل میں اترنے لگتا ہے کہ بروزِ قیامت میں اور یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا یوں ہوں گے(یعنی جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوتی ہیں)(بخاری،ج 3،ص497، حدیث:5304)
اُس مدرسے میں حاضری دی۔ یتیم شامی بچوں کے مختلف درجات میں جانا ہوا جہاں مدنی مُنّوں نے عربی زبان میں مختلف احادیث زبانی سنائیں اور عربی میں حمد و نعت بھی مل کر پڑھی۔ ان مدنی منّوں کا دل خوش کرنے کیلئے وہاں وقت گزارا، اُن کی حوصلہ افزائی کی، سروں پر ہاتھ پھیرا، ان کے ساتھ مل کر عربی کلام پڑھے پھر نگرانِ شوریٰ مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے اُن مدنی منّوں سے اپنی بخشش کی دعا کروائی اور اُن کی مالی خدمت کیلئے ایک اچھی رقم مدرسہ کے ناظم کو پیش کی۔ وہیں مدرسے میں مدنی کاموں کے حوالے سے طویل مشاورت ہوئی، وہاں کے ماحول کے مطابق کئی طریقوں پر غور کیا گیا جو اِنْ شَآءَ اللہ مستقبل میں بہت مفید ثابت ہوں گے۔ مدرسہ کے تُرک مہتمم مَا شَآءَ اللّٰہ پہلے سے ہی عطاری تھے، انہوں نے بڑی اپنائیت سے ملاقات کی، مدنی قافلے کی آمد سے بہت خوش ہوئے بلکہ اگلے دن ترکی کے دوسرے شہر ”شانلی عرفہ“جیسے دور دراز شہر جانے کیلئے خود ہی تیار ہوگئے اور رات کو تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم سے پہلے استنبول ائیر پورٹ پر موجود تھے اور پھر واپسی تک ہمارے ساتھ رہے۔
کسی شہر میں جائیں تو وہاں کے مزارات پر حاضری دینا بزرگانِ دین کا طریقہ رہا ہے بلکہ علماء نے ایسی حاضری کی نیت کو سفر کے آداب میں سے شمار کیا ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، ہمارا بھی یہ ذہن تھا کہ جس شہر میں جائیں گے اچّھی اچّھی نیتوں کے ساتھ ممکنہ صورت میں وہاں کے مزارات پر حاضری دیں گے۔
مبلِّغین کی زیارتِ قبور کے آداب کے ساتھ مزارات پر حاضری دینے سے اِس کا مستحب طریقہ بھی سیکھنے کو ملتا ہے اور ایسے مقامات پر مدنی کام کا بھی عموماً بہت اچھا موقع مل جاتا ہے، مزارات کی حاضری کے ذریعے وہاں زائرین کو نیکی کی دعوت دینے، بیان کرنے، دعوتِ اسلامی کا تعارف کروانے، مدنی رسائل تقسیم کرنے، ہفتہ وار اجتماع کی دعوت دینے وغیرہا کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ مدنی چینل کیلئے اسی مزار پر ریکارڈنگ کا بھی عموماً جدول ہوتا ہے جس سے صاحبِ مزار یا صاحبِ مقام بزرگ کی سیرت و فضائل پر بھی بیان ہوجاتا ہے اور اس مقام کا تعارف و معلومات بھی مسلمانوں کو مل جاتی ہیں۔ یوں مزارات کی حاضری سعادت کے ساتھ نیکی کی دعوت کا بہت اچّھا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اوپر بیان کردہ نیت کے ساتھ ”بُرسا“ میں صاحبِ تفسیرِ روح البیان، حضرت علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار پر حاضری ہوئی، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ عظیم مفسر، عالی درجہ صوفی تھے۔ آپ کی تفسیر علمی اعتبار سے بلند مرتبہ رکھنے کے ساتھ صوفیانہ نکات و افادات پر بھی مشتمل ہے۔ اقوالِ اولیاء و صوفیاء اِس تفسیر میں بکثرت ملتے ہیں، علاوہ ازیں ظاہر و باطن کی اِصلاح اور شریعت و طریقت کے اَسرار و رُموز بھی اِس تفسیر میں بڑی خوبصورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار پر فاتحہ و ایصالِ ثواب کے بعد تفسیر کی اہمیت، تفسیرِ روح البیان کی افادیت اور اسلوب پر راقم الحروف نے مختصر بیان کیا اور دعا بھی مانگی۔ عصر کی نماز بھی وہیں حضرت کے پہلو والی مسجد میں ادا کی۔ ترکی میں مزارات پر حاضری، اولیاء کرام سے محبت، آثارِ صالحین کی حفاظت، ان سے تبرک حاصل کرنے کا نہایت جذبہ ہے۔ مسلمان مزارات پر کثرت سے حاضری دیتے، دعائیں مانگتے، برکتیں حاصل کرتے اور وہاں سے پانی و دیگر اشیاء بطورِ تبرک لیجاتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دار الافتاء اہلِ سنّت فیضان مدینہ ، باب المدینہ کراچی
Comments