بیان وتدریس کے ذریعے نئی نسل میں علمِ دین کی لازوال دولت منتقل کی جاتی ہے جس کی بدولت عقائد و اعمال میں پختگی آتی ہے،اخلاق و کردار نکھرتے ہیں،معاشرے سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں نیز متقی ، پرہیز گاراور ماہر استاد کی زیرِتربیت رہنے والے طلبہ جس میدان میں قدم رکھتے ہیں کامیابی اُن کے قدم چومتی ہے۔ شہنشاہِ ولایت حضرت سیّدنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم نےعلمِ دین کی تکمیل اور زُہد و مجاہدہ کے طویل سفرکے بعد وعظ وتدریس کا آغاز استادِ گرامی حضرت ابو سعد مُخَرِّمِی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےقائم کردہ مدرسہ سے کیا۔ غوثِ پاک کےوعظ وتدریس کی شہرت کےسبب عاشقانِ علمِ دین کی تعداد اس قدر بڑھی کہ یہ مدرسہ انہیں سمونے سے قاصر رہا اسی لئےمدرسے کی توسیع کی گئی۔(المنتظم ،ج18،ص173) حضرت سیّدنا غوث ِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم فقہ، حدیث، تفسیر، نحو جیسے 13 مضامین (Subjects)کی تدریس فرماتے۔ بعدِ نمازِ ظہر قراءت ِقراٰن جیسا اہم مضمون پڑھاتے۔ (قلائد الجواھر، ص 38) آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اکتسابِِ فیض کرنے والے طلبہ کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہےجن میں فقہاکی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔ (مراۃ الجنان،ج3،ص267)صحبتِ غوثِ اعظم کی برکت: حضرت سیّدنا عبدُاللہ خشّاب علیہ رحمۃ اللہ الوَہَّاب علمِ نحوپڑھ رہے تھے، درسِ غوث اعظم کا شہرہ بھی سُن رکھا تھا،ایک روز آپ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کےدرس میں شریک ہوئےجب آپ کو نحوی نکات نہ ملےتو دل میں وقت ضائع ہونے کا خیال گزرا اسی وقت غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم آپ کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا:”ہماری صحبت اختیار کرلو ہم تمہیں(علمِ نحو کے مشہور امام) سِیْبَوَیہ (کامثل) بنادیں گے۔“یہ سُن کرحضرت عبدُ اللہ خشّاب نحوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے درِغوثِ اعظم پر مستقل ڈیرے ڈال دئے جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو نحوکے ساتھ ساتھ علومِ نقلیہ و عقلیہ پرمہارت حاصل ہوئی۔ (قلائدالجواھر، ص32،تاریخ الاسلام للذھبی،ج 39،ص267) حضرت سیّدنا غوث ِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کے علمی موتیوں کی یہ شان تھی کہ 400 علماآپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی زبان سے ادا ہونے والےعلم و حکمت کے لازوال موتیوں کو محفوظ کرنےکے لئے حاضر رہتے۔ (نزہۃ الخاطرالفاترمع الطریقۃ القادریۃ، ص210) ایک آیت کی چالیس تفاسیر بیان فرمادیں:ایک مرتبہ غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کسی آیت کی تفسیر بیان فرمارہے تھے،امام ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القَویبھی اِس درس میں شریک تھے۔حضورِ غوثِ پاک نے چالیس تفاسیربیان فرمائیں جس میں سےگیارہ تفاسیر امام ابنِ جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے علم میں تھیں جب کہ29 تفاسیر پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےتعجّب اور لاعلمی کا اظہار کیا پھرجب غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایاكہ اب ہم قال سے حال کی طرف چلتے ہیں،تو لوگ بہت زیادہ مُضْطَرِب ہو گئے۔ (قلائد الجواھر، ص 38) حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے آخری وقت تک تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کاعہدِ تدریس 33سال پر محیط ہے۔ (المنتظم، ج18،ص 173، سیرِ اعلام النبلاء،ج15،ص183، الشیخ عبدالقادر الجیلانی، ص172) تدریسِ غوثِ اعظم کے نتائج و اثرات:آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے تلامذہ (شاگرد) بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے مثلاً سلطان نورُالدّین زنگی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےتلمیذِ غوثِ اعظم حضرت حامد بن محمود حرانیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کوحَرّان میں قضا(Justice) اور تدریس (Teaching) کا منصب سونپا۔ تلمیذِ غوثِ اعظم حضرت زینُ الدّین علی بن ابراہیم دمشقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سُلْطان صلاحُ الدّین ایوبی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مُشیر رہے۔(الشیخ عبدالقادر الجیلانی، ص198)حضور غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْاَکرَم کے طریقۂ تدریس اور اندازِ تربیت سے طلبہ میں دعوتِ دین کاجذبہ پیدا ہوااسی جذبے کانتیجہ تھاکہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کےشاگرد مخلوقِ خدا کو راہِ راست پر لانے،تزکیۂ نفس فرمانےاور جہالت کی تاریکی مٹانے کے لئے عالَم میں پھیل گئے۔فیضانِ غوثِ اعظم کودنیا بھر میں عام کرنے میں آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے تلامذہ وخلفا نے بھرپور کردار ادا کیا۔
(مراۃ الجنان ج3،ص267،الشیخ عبدالقادرالجیلانی،ص172، 196)
سِلکِ عرفاں کی ضِیا ہے یہی دُرِّمختار
فخرِ اشباہ و نَظائر بھی ہے عبدُالقادر
(حدائق ِبخشش،ص69)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دارشعبہ فیضان اولیا و علما ،المدینۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments