بیل نے کیا کہا؟: ولیوں کے سُلطان، حضرتِ سیّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدُالقادِر جیلانی قُدّسَ سِرُّہُ الرّبّانِی اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں عَرَفہ (یعنی 9 ذُوالْحِجّۃ الحَرام) کے دن گاؤں گیا اور ایک بیل کے پیچھے پیچھے چلنے لگا، اچانک بیل میری طرف دیکھ کر بولا: اے عبدُالقادر! آپ کو اِس قسم کے کاموں کے لئے نہ تو پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی اِس کا حکم دیا گیا ہے۔ بیل کو بولتا دیکھ کر میں گھبرا گیا اور لَوٹ کر گھر آگیا، گھر کی چھت پر چڑھا تو مجھے میدانِ عَرَفات نظر آنے لگا (حالانکہ جیلان سے میدانِ عرفات بہت دور ہے)۔ امّی حضور سے اجازت مانگی میں اپنی امّی جان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے راہِ خدا میں وَقْف کردیجئے اور علمِ دین حاصل کرنے کے لئے بغداد جانے کی اِجازت بھی عطا فرما دیجئے۔ امّی جان نے سبب دریافت فرمایا تو میں نے بیل کی گفتگو اور میدانِ عَرَفات نظر آنے کا واقِعہ سُنا دیا۔ میری بات سُن کر امّی جان نے سونے کے40 سِکّے میری قمیص میں سی دئیے اور بغداد جانے کی اِجازت عطا فرماتے ہوئے ہر حال میں سچ بولنے کا وعدہ لے کر مجھے اَلْوَداع کہا۔ ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا میں بغداد جانے والے ایک چھوٹے سے قافِلے کے ساتھ روانہ ہوگیا، راستے میں60 ڈاکو ہمارے قافِلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافِلہ لُوٹ لیا لیکن کسی نے مجھے کچھ نہ کہا۔ ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا: تمہارے پاس کیا ہے؟ میں نے جواب دیا: سونے کے40 سِکّے۔ ڈاکو بولا: کہاں ہیں؟ میں نے کہا: قمیص کے اندر سِلے ہوئے ہیں۔ ڈاکو اِس بات کو مذاق سمجھتا ہوا چلا گیا، اِس کے بعد دوسرا ڈاکو آیا اور وہ بھی پوچھ گچھ کرنے کے بعد چلا گیا۔ جب یہ ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے اوراُسے میرے بارے میں بتایا تو اُس نے مجھے بلالیا، جب میں وہاں پہنچاتووہ لُوٹا ہوا مال آپس میں بانٹ رہے تھے۔ سردار نے بھی مجھ سے رقم کا پوچھا اور میں نے وہی جواب دیا جو پہلے کو دیا تھا، چُنانچہ سردار کے حکم پر میری تلاشی لی گئی اور سونے کے40 سِکّے بَرآمد ہوگئے، سردار نے حیران ہوکر کہا: تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ میں نے کہا: امّی جان نے مجھ سے ہر حال میں سچ بولنے کا وعدہ لیا تھا اور میں وعدہ خِلافی نہیں کرسکتا۔ میرا جواب سُن کر سردار رو پڑا اور کہنے لگا: تم نے اپنی ماں کے وعدہ کی خِلاف ورزی نہیں کی، جبکہ میں کئی سالوں سے اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے عہد کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔ اِس کے بعد سردار نے میرے ہاتھ پر توبہ کی، جب بقیہ ڈاکوؤں نے یہ منظر دیکھا تو بولے: آپ ڈکیتی میں ہمارے سردار تھے اب توبہ کرنے میں بھی ہمارے سردار ہیں، چنانچہ بقیہ ڈاکوؤں نے بھی توبہ کرلی اور قافِلے والوں کا مال بھی واپس کردیا۔ یوں یہ پہلا گروہ تھا جس نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔(بہجۃ الاسرار، ص167)
حکایت سے حاصل ہونے والے مدنی پھول
پیارے مَدَنی مُنّو اور مَدَنی مُنّیُو! دیکھا آپ نے! امّی جان کا حکم ماننے اور سچ بولنے کی بَرَکت سے نہ صرف رقم محفوظ رہی بلکہ ڈاکو توبہ کر کے نیک بن گئے۔ حضورسیّدنا غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم فرماتے ہیں: میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، مدرسے میں پڑھتے ہوئے بھی نہیں۔(بہجۃ الاسرار،ص167)
ہمیں بھی چاہئے کہ گھر ہو یا مدرسہ ہمیشہ ہر جگہ سچ بولیں نیز امّی ابّو کا ہر وہ حکم فوراً مان لیں جو شریعت سے نہ ٹکراتا ہو، کیونکہ اِسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* ذمہ دار شعبہ فیضانِ امیر اہلِ سنّت، المدنیۃ العلمیہ، باب المدینہ کراچی
Comments