Book Name:Mujza-e-Meraaj Staeswen Shab 1440
معراج شریف کا انکار کرنا کیسا؟
صَدْرُ الْاَفاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ستائیسویں(27)رجب کو معراج ہوئی۔ مکہ مکرمہ سے حضورپُرنور (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) کابیت المقدس تک شب کے چھوٹے حصہ میں تشریف لے جانا نصِّ قرآنی سے ثابت ہے۔ اس کا منکر (انکار کرنے والا) کافِر ہے اور آسمانوں کی سیر اور مَنَازِلِ قُرْب میں پہنچنا احادیثِ صحیحہ معتمدہ مشہورہ (صحی ـحَہ، مُعْـتَـمَدَہ، مَشْـہُوْرَہ) سے ثابِت ہے جو حدِّ تَوَاتُر کے قریب پہنچ گئی ہیں اس کا منکر (انکار کرنے والا) گمراہ ہے۔([1]) عُرُوج یا اعراج یعنی سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سر کی آنکھوں سے دیدارِ الٰہی کرنے اور فَوقَ الْعَرْش (عرش سے اُوپر) جانے کا منکر (انکار کرنے والا) خاطِی یعنی خطاکار ہے۔([2])
پیارےپیارےاسلامی بھائیو!حُضُورفَخرِمَوجُودات،سیّدِکائناتصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےاس عَظِیمُ الشَّان مُعْجِزے پربے جا اِعتراضات کرنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دَورِ مُبارَک سے اب تک بہت سے ناسمجھ اورحقیقت سے ناواقف لوگ اس عظیم مُعْجِزے کا اِنکار کرتےآئے ہیں،ایک مُسَلمان کیلئے بس یہی کافی ہے کہ اس واقعے کو عقل کے تَرازُو میں تولنے کے بجائے اللہ پاک کی طاقت وقُدرت کو پیشِ نظر رکھے،کیونکہ اللہ پاک ہرچیز پر قادرہے۔اس بات کو مزید سمجھنے کیلئے حضرتِ سَیِّدُناسلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اُمّتی حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی یہ کرامت بھی ذِہْن میں رکھئے کہ اُنہوں نے اَسّی(80) گز لمبا اور چالیس(40) گز چوڑا ہیروں اور جواہرات سےآراستہ تَخْت پلک جھپکنے سے پہلے پہلے یمن سے ملک ِشام میں پہنچا دیاتھا